Hazrat Balalؓ ke iman afroz kahani

0
Hazrat Balalؓ ke iman afroz kahani

اسلام کی ابتدائی تاریخ میں کئی ایسے عظیم صحابہ گزرے جنہوں نے اپنی جان، مال اور عزت کی پرواہ کیے بغیر اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے قربانیاں دیں۔ انہی عظیم ہستیوں میں سے ایک نام حضرت بلال حبشیؓ کا ہے۔ وہ ایک غلام تھے، لیکن اسلام نے انہیں وہ مقام عطا کیا کہ وہ نبی اکرم ﷺ کے مقربین میں شامل ہو گئے۔ ان کی قربانی، صبر اور ثابت قدمی آج بھی ہر مومن کے لیے مشعلِ راہ ہے۔

حضرت بلالؓ حبشہ (موجودہ ایتھوپیا) میں پیدا ہوئے اور مکہ کے ایک قریشی سردار امیہ بن خلف کے غلام تھے۔ ان کی ماں حمامہ بھی ایک حبشی خاتون تھیں جو غلامی کی زندگی گزار رہی تھیں۔ عرب میں اس وقت غلاموں کے ساتھ انتہائی ظالمانہ سلوک کیا جاتا تھا، انہیں انسانوں سے کم تر سمجھا جاتا اور بے دریغ تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔

جب نبی کریم ﷺ نے اسلام کی دعوت کا آغاز کیا، تو سب سے پہلے غلام اور نچلے طبقے کے لوگ اس پیغام پر ایمان لائے، کیونکہ یہ دین برابری، انصاف اور توحید کا درس دیتا تھا۔ حضرت بلالؓ بھی اس پیغام سے متاثر ہوئے اور نبی اکرم ﷺ کے ہاتھ پر اسلام قبول کر لیا۔

جب ان کے مالک امیہ بن خلف کو معلوم ہوا کہ بلالؓ اسلام قبول کر چکے ہیں، تو اس نے ان پر شدید ظلم و ستم ڈھانا شروع کر دیا۔ انہیں سخت گرمی میں دہکتے ہوئے ریت پر لٹایا جاتا، لوہے کی زرہ پہنائی جاتی، اور ان کے سینے پر بھاری پتھر رکھ دیا جاتا تاکہ وہ اپنی نئی عقیدت سے دستبردار ہو جائیں۔ لیکن حضرت بلالؓ ہر تکلیف کے بدلے صرف ایک ہی کلمہ دہراتے:

"أحدٌ، أحدٌ" (اللہ ایک ہے، اللہ ایک ہے)

یہ الفاظ ان کے ایمان کی مضبوطی کی علامت بن گئے، اور وہ ہر اذیت کو اللہ کے راستے میں برداشت کرتے رہے۔

حضرت بلالؓ کی تکالیف اور ان کا صبر حضرت ابو بکر صدیقؓ تک پہنچا، تو انہوں نے امیہ بن خلف سے بلالؓ کو خرید کر آزاد کر دیا۔ اس طرح حضرت بلالؓ غلامی کی زنجیروں سے آزاد ہو کر اسلام کے ایک معزز صحابی بن گئے۔

جب وہ آزاد ہوئے تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
"یہ بلال ہے، جنت میں اس کے قدموں کی آواز مجھ سے پہلے سنائی دی!"

یہ الفاظ اس بات کا ثبوت ہیں کہ حضرت بلالؓ کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی کتنی محبت حاصل تھی۔

جب مدینہ میں مسجد نبوی تعمیر ہوئی تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ کسی کو اذان کے لیے مقرر کیا جائے۔ نبی کریم ﷺ نے حضرت بلالؓ کو اذان دینے کا شرف عطا کیا۔جب حضرت بلالؓ نے اپنی دلکش آواز میں "اللہ اکبر، اللہ اکبر" کہہ کر اذان دی، تو مدینہ کی فضائیں گونج اٹھیں۔ یہ اسلام کی پہلی باضابطہ اذان تھی اور حضرت بلالؓ قیامت تک کے لیے مؤذنِ رسول کے لقب سے مشہور ہو گئے۔

جب مکہ فتح ہوا اور نبی کریم ﷺ اپنے صحابہ کے ساتھ خانہ کعبہ میں داخل ہوئے تو انہوں نے حکم دیا کہ خانہ کعبہ کی چھت پرچڑھ کر اذان دی جائے۔یہ حضرت بلالؓ ہی تھے جنہیں یہ اعزاز ملا کہ وہ بیت اللہ کی چھت پر چڑھ کر فتح مکہ کی اذان دیں۔ وہی بلالؓ جو کبھی اسی مکہ کی گلیوں میں ظلم سہتے تھے، آج سب سے بلند مقام پر کھڑے ہو کر اللہ کی توحید کا اعلان کر رہے تھے۔

جب نبی کریم ﷺ کا وصال ہوا تو حضرت بلالؓ کے لیے مدینہ میں رہنا بہت مشکل ہو گیا، کیونکہ ہر چیز انہیں نبی ﷺ کی یاد دلاتی تھی۔ وہ مدینہ چھوڑ کر شام (دمشق) چلے گئے، جہاں باقی زندگی گزارنے لگے۔

ایک رات انہوں نے خواب میں نبی کریم ﷺ کو دیکھا، جنہوں نے فرمایا:
"اے بلال! ہمیں بھول گئے؟"

یہ خواب دیکھ کر حضرت بلالؓ روتے ہوئے فوراً مدینہ واپس آئے۔ صحابہ نے ان سے اذان دینے کی درخواست کی، تو جب انہوں نے "اشہد أن محمدًا رسول الله" کہا، تو پورا مدینہ اشکبار ہو گیا، کیونکہ یہ وہی بلالؓ تھے، وہی آواز تھی، لیکن نبی ﷺ اب موجود نہ تھے۔

حضرت بلالؓ کا انتقال 20 ہجری میں دمشق میں ہوا۔ جب ان کی وفات کا وقت قریب آیا، تو ان کی اہلیہ نے روتے ہوئے کہا"ہائے افسوس!"لیکن حضرت بلالؓ نے کہا:
"افسوس مت کرو، خوش ہو جاؤ! کل میں اپنے محبوب نبی محمد ﷺ اور صحابہ سے ملاقات کروں گا!"یہ کہہ کر انہوں نے اپنی جان جانِ آفرین کے سپرد کر دی۔

یمان پر ثابت قدمی: حضرت بلالؓ نے ہر ظلم سہ کر بھی اللہ کی توحید پر سمجھوتہ نہیں کیا، یہی حقیقی ایمان ہے۔
صبر اور قربانی: دین پر چلنے کے لیے قربانی دینی پڑتی ہے، اور حضرت بلالؓ نے اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر اسلام کو اپنایا۔
اسلام میں برابری: حضرت بلالؓ ایک غلام تھے، لیکن اسلام نے انہیں عزت بخشی اور مؤذنِ رسول بنایا، جو ثابت کرتا ہے کہ اسلام میں نسل اور رنگ کی کوئی اہمیت نہیں، صرف تقویٰ ہی اصل معیار ہے۔
اللہ پر بھروسہ: جب آپ اللہ کے لیے سب کچھ چھوڑ دیتے ہیں، تو اللہ آپ کو وہ عزت دیتا ہے جو کوئی دوسرا نہیں دے سکتا۔


Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !