Islamic story in urdu

0

Islamic story in urdu

ایک وقت کی بات ہے کہ دو مسافر—ایک دولت مند مگر کنجوس شخص اور دوسرا سادہ دل مگر سخی انسان—الگ الگ مزاج اور سوچ رکھنے کے باوجود ایک لمبے سفر پر روانہ ہوئے۔ یہ سفر ان کے ایمان، نیت اور کردار کا امتحان بننے والا تھا۔

چلتے چلتے وہ دونوں ایک خشک صحرائی علاقے سے گزرے، جہاں نہ پانی تھا نہ سایہ۔ کئی دنوں کی مسافت کے بعد بالآخر ایک بڑا سا درخت نظر آیا، جس کا سایہ دور تک پھیلا ہوا تھا۔

سخی شخص نے کہا: "چلو، رات یہیں گزار لیتے ہیں۔ صبح انشاء اللہ شہر کی طرف روانہ ہوں گے۔"
کنجوس شخص نے ہامی بھری، دونوں درخت کے نیچے آرام سے بیٹھ گئے۔

سخی نے اپنا تھوڑا سا کھانا نکالا اور کہا:
"پہلے میرا کھا لیتے ہیں، رات کو تمہارا کھا لیں گے۔"

مگر جب رات چھا گئی، تو کنجوس نے دل میں سوچا:
"اگر ابھی سارا کھانا کھا لیا تو کل کیا ہوگا؟"
یہ سوچ کر اس نے چپکے سے اپنا کھانا الگ کھا لیا اور سخی کو بھوکا سلا دیا۔

جب سخی کو اس دھوکے کا پتا چلا تو وہ چپ چاپ رات کے اندھیرے میں وہاں سے نکل گیا۔ وہ چلتا گیا، چلتا گیا، یہاں تک کہ ایک پرانی، ویران چکی پر پہنچا۔ تھک کر اس نے فیصلہ کیا کہ رات وہیں گزارے گا۔ وہ چکی کی بالائی منزل پر جا کر لیٹ گیا۔

رات کی تاریکی پھیل چکی تھی، چاندنی مدھم ہو چکی تھی اور سخی شخص ویران چکی کی بالائی منزل پر چھپا بیٹھا تھا۔ اسی اثناء میں دروازہ دھیرے سے کھلا اور ایک کے بعد ایک، جنگل کے درندے اندر داخل ہونے لگے۔ سب سے پہلے شیر آیا، اس کے بعد چیتا، بھیڑیا، گیدڑ، تندور اور لومڑی۔

جب سب جمع ہو گئے تو شیر نہایت سنجیدہ انداز میں بولا:
"جنگل کی رعایا، خوش آمدید! آج کی ماہانہ مجلس شروع کی جاتی ہے۔ جس کے پاس کوئی خبر، مسئلہ یا شکایت ہو، وہ بیان کرے۔"


چیتا بولا: "میرے علاقے میں ایک عجیب چوہا ہے، جو روزانہ سورج نکلتے ہی سونے کی اشرفیاں نکال کر دھوپ میں رکھتا ہے اور ایک گھنٹے بعد واپس رکھ دیتا ہے... نہ جانے کیوں۔"

تندور نے کہا: "میرے علاقے میں ایک انسانوں کا بادشاہ ہے جس کی بیٹی سخت بیمار ہے، اور اس کی شفا ایک خاص مرغی کے انڈے میں ہے۔"

پھر بھیڑیا بولا: "ایک درخت ہے جو بہت اونچا ہے، اس کے نیچے خزانہ چھپا ہوا ہے، اسی لیے وہ پھل نہیں دیتا۔"

گیدڑ کی آواز آئی: "بادشاہ سلامت! انسانوں نے ہمارے شکار کا دروازہ بند کر دیا ہے، بچے بھوکے ہیں، سبزیاں تک کھا گئے ہیں۔"

یہ سب سن کر اوپر چھپا سخی شخص حیران رہ گیا، مگر خاموشی سے سانس روکے بیٹھا رہا۔


جیسے ہی صبح ہوئی، سب جانور خاموشی سے وہاں سے چلے گئے۔ سخی شخص فوراً نیچے اترا اور چیتے کی بتائی ہوئی جگہ پر پہنچا۔ وہاں اس نے واقعی چوہے کو سونے کی اشرفیاں دھوپ میں رکھتے دیکھا۔ اس نے فوراً ایک پتھر پھینکا، چوہا بھاگ گیا، اور وہ تمام اشرفیاں لے کر روانہ ہو گیا۔


پھر وہ سیدھا اس گاؤں پہنچا جہاں وہ خاص مرغی تھی۔ کسان کو دس سونے کی اشرفیاں دے کر مرغی خریدی۔ کسان خوشی سے حیران ہو گیا۔ سخی شخص مرغی کو لے کر ایک درخت کے نیچے بیٹھ گیا اور انتظار کرنے لگا کہ انڈہ دے۔

انڈہ ملتے ہی اس نے اسے احتیاط سے سنبھالا اور بادشاہ کے محل کی طرف روانہ ہو گیا۔


بادشاہ کے دربار میں پہنچ کر سخی نے کہا: "اگر میں شہزادی کو شفا دے دوں، تو کیا انعام پاؤں گا؟"
بادشاہ نے کہا: "اگر کامیاب ہو تو میری بیٹی تمہاری ہوگی۔ مگر اگر فریب نکلا تو جان سے جاؤ گے۔"

سخی نے شرط قبول کی، مگر کہا: "علاج ایسے کمرے میں ہوگا جہاں صرف وہی دیکھ سکے جسے خدا ہر چیز سے باخبر رکھتا ہے۔"


شہزادی نڈھال بستر پر پڑی تھی۔ سخی نے انڈے کا مواد نکالا، کپڑے پر لگا کر شہزادی کے جسم پر لگایا۔ چند لمحوں بعد شہزادی نے آنکھیں کھولیں۔ پھر بولنے لگی۔ پھر اٹھ بیٹھی، جیسے کبھی بیمار تھی ہی نہیں۔

بادشاہ حیران، رعایا حیران... مگر سخی جانتا تھا—یہ سب اللہ کے حکم سے تھا۔


شہزادی کے صحتیاب ہوتے ہی بادشاہ کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ اس نے فوراً قاضی کو بلایا اور وعدے کے مطابق شہزادی کا نکاح سخی شخص سے کر دیا۔ پھر کئی دنوں تک بادشاہی سطح پر شادی کا جشن منایا گیا، شہر گلی گلی روشنیوں سے جگمگا اٹھا۔


اگلے دن، سخی نے بادشاہ سے کہا:
"اے بادشاہِ وقت! آپ کی سلطنت میں ایک ایسا درخت ہے جس کی شاخیں آسمان سے باتیں کرتی ہیں، مگر وہ پھل نہیں دیتا۔ اس کی جڑوں میں ایک خزانہ دفن ہے جو اتنا عظیم ہے کہ آپ کے محل میں بھی نہ سما سکے۔"

بادشاہ نے فوراً اپنے خاص سپاہی اور مزدور روانہ کیے۔ سخی کے ساتھ وہ درخت کے مقام پر پہنچے اور کھدائی شروع ہوئی۔ جلد ہی وہ خزانے تک پہنچ گئے۔ سخی نے خزانے کا کچھ حصہ مزدوروں میں بانٹ دیا، کچھ حصہ فقیروں کو دیا، اور باقی سلطنت میں عام بہبود کے لیے وقف کر دیا۔


چند دن بعد جب سخی بازار میں چہل قدمی کر رہا تھا، تو اچانک اس کی نظر اپنے پرانے بخیل ساتھی پر پڑی۔ وہ خوشی سے اس سے گلے ملا اور دعوت دی، مگر بخیل نے سوال کیا:
"یہ سب تم نے کیسے پایا؟"


سخی نے اسے پوری کہانی سنائی: جنگل کی رات، درندوں کی مجلس، اور ان کی باتوں سے ملی دانشمندی۔ بخیل کے دل میں فوراً حسد اور لالچ نے جگہ بنا لی۔ اس نے سوچا کہ اگر سخی کر سکتا ہے تو میں کیوں نہیں؟ وہ فوراً اسی چکی کی طرف روانہ ہو گیا۔


اتفاق سے آج پھر جانوروں کی مجلس کا دن تھا۔ درندے جمع ہوئے۔ شیر نے سب کو خوش آمدید کہا۔
مگر اس بار بھیڑیا بولا:
"اے بادشاہ! پچھلی مجلس کی تمام خفیہ باتیں کیسے باہر پہنچیں؟ چوہے کا خزانہ لوٹ لیا گیا، مرغی فروخت ہوئی، اور خزانہ نکالا گیا۔ ہمیں شک ہے کوئی ہماری باتیں سن رہا ہے!"

شیر نے فوراً حکم دیا کہ ہر گوشہ چھان مارو!


کچھ ہی دیر میں درندوں نے بخیل کو چکی کی چھت پر چھپا ہوا پا لیا۔ سب کا غصہ بھڑک اٹھا۔ اس پر حملہ کیا گیا۔ بمشکل وہ اپنی جان بچا کر بھاگا، مگر بری طرح زخمی ہو چکا تھا۔


یوں سخی کو اس کی نیکی، عقل اور فیاضی کا صلہ ملا — محبت، دولت اور عزت کی صورت میں۔
جبکہ بخیل کی لالچ اور خود غرضی نے اسے ذلت، ناکامی اور درد کا تحفہ دیا۔


"دوستو! کبھی کبھی علم، عقل اور نیکی ایسے دروازے کھولتے ہیں جو طاقت، دولت اور چالاکی بھی نہیں کھول سکتی۔"

Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !