کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ جب آپ صبح کی سیر کرتے ہیں یا تھوڑی سی ورزش کرتے ہیں تو دماغ کتنا ہلکا، صاف اور متحرک محسوس ہوتا ہے؟
یہ کوئی اتفاق نہیں — بلکہ سائنس کا کمال ہے۔
John Medina کی مشہور کتاب "Brain Rules" میں سب سے پہلا اصول یہی بتایا گیا ہے کہ
“Exercise boosts brain power.”
یعنی ورزش صرف جسم کے لیے نہیں، بلکہ دماغ کے لیے بھی سب سے بڑی غذا ہے۔
ورزش دماغ کو کس طرح طاقت دیتی ہے؟
Medina لکھتے ہیں کہ انسانی دماغ اس وقت بہترین کام کرتا ہے جب جسم متحرک ہو۔
ورزش کے دوران خون میں آکسیجن کی مقدار بڑھتی ہے،
جس سے دماغی خلیے زیادہ فعال ہو جاتے ہیں۔
یہ عمل نہ صرف یادداشت کو بہتر بناتا ہے بلکہ
توجہ (focus) اور تخلیقی سوچ (creativity) میں بھی اضافہ کرتا ہے۔
مطالعات سے ثابت ہوا ہے کہ
جو لوگ روزانہ کچھ وقت پیدل چلنے، یوگا یا ہلکی ورزش میں گزارتے ہیں،
ان کا دماغ 40٪ زیادہ کارکردگی دکھاتا ہے بنسبت ان لوگوں کے جو سارا دن بیٹھے رہتے ہیں۔
ورزش دماغ کے لیے ایندھن کی طرح ہے
Medina کہتے ہیں کہ ورزش دماغ کے لیے وہی ہے جو ایندھن گاڑی کے لیے ہوتا ہے۔
اگر آپ کے جسم میں حرکت نہیں، تو دماغ کی رفتار بھی سست ہو جاتی ہے۔
ورزش دماغ میں نئے خلیے بنانے (neurogenesis) کے عمل کو بڑھاتی ہے،
جو کہ سیکھنے اور یاد رکھنے کے لیے بہت اہم ہے۔
یہ بات خاص طور پر ان لوگوں کے لیے اہم ہے جو دن کا زیادہ حصہ کمپیوٹر کے سامنے گزارتے ہیں۔
جب ہم گھنٹوں ایک ہی جگہ بیٹھے رہتے ہیں تو دماغ کی blood circulation کم ہو جاتی ہے —
جس سے تھکن، بیزاری اور ذہنی دباؤ پیدا ہوتا ہے۔
ایسے میں صرف 20 منٹ کی واک بھی دماغ کو ری سیٹ کر دیتی ہے۔
“ورزش نہ صرف عمر بڑھاتی ہے بلکہ دماغ کو جوان رکھتی ہے”
John Medina کے مطابق، روزانہ ورزش کرنے والے افراد میں
دماغی بڑھاپا (cognitive decline) بہت سست ہوتا ہے۔
یعنی عمر بڑھنے کے باوجود وہ لوگ زیادہ بہتر یادداشت اور توجہ برقرار رکھتے ہیں۔
ورزش Alzheimer’s اور دیگر ذہنی بیماریوں سے بچاؤ میں بھی مددگار ہے۔
انسانی دماغ بھی ارتقاء کا شاہکار ہے
جب ہم آئینے میں اپنا چہرہ دیکھتے ہیں تو اکثر ہم صرف جسمانی خدوخال دیکھ پاتے ہیں —
لیکن اگر ہم ذرا گہرائی میں جھانکیں تو پتا چلتا ہے کہ انسانی دماغ دراصل کروڑوں سال کے ارتقائی سفر کا نتیجہ ہے۔
John Medina اپنی کتاب "Brain Rules" کے دوسرے اصول میں بتاتے ہیں کہ
“The human brain evolved, too.”
یعنی انسان کا دماغ بھی وقت کے ساتھ ساتھ ترقی کرتا گیا،
سیکھتا گیا، اور خود کو بدلتا گیا تاکہ وہ بدلتی دنیا کے ساتھ مطابقت پیدا کر سکے۔
دماغ کا ارتقاء — غاروں سے جدید دنیا تک
Medina وضاحت کرتے ہیں کہ اگر ہم 25,000 سال پیچھے جائیں،
تو ہمارے آباؤ اجداد ایک بالکل مختلف دنیا میں رہتے تھے۔
وہ شکار کرتے تھے، فطرت کے رحم و کرم پر زندہ رہتے تھے،
اور ہر لمحہ بقا کی جنگ لڑتے تھے۔
ان حالات نے انسان کو سوچنے، منصوبہ بندی کرنے، اور
سنجیدہ فیصلے کرنے کی صلاحیت دی —
یہی وہ بنیاد ہے جس پر آج کا جدید دماغ کھڑا ہے۔
Medina کہتے ہیں کہ ہمارا دماغ ایک “survival brain” ہے۔
یعنی یہ اس وقت سب سے بہتر کام کرتا ہے جب ہم چیلنج، تجسس، یا خطرے کا سامنا کر رہے ہوں۔
یہی وجہ ہے کہ جب ہم کسی نئی چیز کو سیکھنے یا دریافت کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو دماغ میں ڈوپامائن خارج ہوتی ہے،
جو ہمیں خوشی اور تحریک دیتی ہے۔
دماغ فطری طور پر متجسس ہے
Medina کے مطابق انسان کا دماغ سیکھنے کے لیے بنا ہے، آرام کے لیے نہیں۔
یہ ہمیشہ سوال کرتا ہے، تجسس رکھتا ہے، اور نیا جاننے کی خواہش رکھتا ہے۔
اسی تجسس نے انسان کو پتھر کے دور سے نکال کر ٹیکنالوجی کے دور تک پہنچایا۔
“We are natural explorers — curiosity is our brain’s favorite fuel.”
یہی وجہ ہے کہ بچوں کا دماغ سب سے زیادہ متحرک ہوتا ہے —
وہ ہر چیز کو چھو کر، دیکھ کر، اور پوچھ کر سیکھنا چاہتے ہیں۔
Medina مشورہ دیتے ہیں کہ ہمیں یہ تجسس زندگی بھر برقرار رکھنا چاہیے،
کیونکہ یہ ہمارے دماغ کو ہمیشہ جوان اور تخلیقی رکھتا ہے۔
سیکھنے کا قدرتی طریقہ
کتاب میں بتایا گیا ہے کہ دماغ linear انداز میں نہیں سیکھتا۔
یعنی ہم چیزوں کو سیدھی لائن میں نہیں بلکہ تجربے، مشاہدے اور احساس کے ذریعے سیکھتے ہیں۔
اسی لیے بہترین سیکھنے کا طریقہ یہ ہے کہ آپ نئے تجربات کریں،
اپنے خیالات کو چیلنج کریں، اور سیکھنے کے عمل کو متنوع (interactive) بنائیں۔
یہی وہ ارتقائی حکمت ہے جس نے انسان کو دوسروں مخلوقات سے ممتاز بنایا۔
Medina کے الفاظ میں:
“Our ancestors didn’t learn in classrooms. They learned while moving, observing, and surviving.”
جدید دور میں دماغ کا چیلنج
آج کے دور میں، جب ہم زیادہ تر وقت کمپیوٹر یا موبائل اسکرین کے سامنے گزارتے ہیں،
ہمارا دماغ اپنے فطری ارتقائی نظام کے خلاف کام کر رہا ہوتا ہے۔
Medina کہتے ہیں کہ انسان کا دماغ اب بھی قدرتی ماحول میں بہتر کارکردگی دکھاتا ہے —
جب ہم حرکت میں ہوں، فطرت میں ہوں، یا دوسروں سے بات چیت کر رہے ہوں۔
اس لیے اگر ہم اپنی پیدائشی ذہانت اور صلاحیت کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں،
تو ہمیں اپنی زندگی میں فطرت، حرکت اور انسانی تعلق واپس لانا ہوگا۔
"ہر دماغ الگ انداز میں بنا ہے"
( Every Brain is Wired Differently)
دنیا میں کوئی بھی دو فنگر پرنٹس ایک جیسے نہیں ہوتے —
بلکل اسی طرح، دنیا میں کوئی دو دماغ بھی ایک جیسے نہیں ہوتے۔
یہی وہ اصول ہے جو John Medina اپنی کتاب “Brain Rules” کے تیسرے باب میں سمجھاتے ہیں۔
ان کے مطابق:
“Every brain is wired differently from every other brain.”
— John Medina
یعنی ہر انسان کا دماغ اپنی ساخت، اپنی سوچ، اور سیکھنے کے انداز میں منفرد ہے۔
دماغ کا منفرد نیٹ ورک
Medina کہتے ہیں کہ جب ہم کچھ نیا سیکھتے ہیں،
تو ہمارا دماغ اپنے اندر نئے نیورون راستے (neural pathways) بناتا ہے۔
یہ راستے ہر شخص کے تجربات، جذبات، اور ماحول کے مطابق مختلف ہوتے ہیں۔
اسی لیے کوئی شخص ریاضی میں ماہر ہوتا ہے تو کوئی دوسرا موسیقی میں —
کوئی چیز ایک کے لیے آسان ہوتی ہے، جبکہ دوسروں کے لیے مشکل۔
دماغ ایک dynamic organ ہے، جو مسلسل بدلتا رہتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ آپ کے سیکھنے، سوچنے، اور محسوس کرنے کا انداز صرف آپ کا اپنا ہے۔
تعلیم اور سیکھنے میں فرق کیوں ضروری ہے؟
مدرسوں اور والدین کے لیے Medina کا یہ اصول بہت اہم ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ہم اکثر سب کو ایک ہی پیمانے پر پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں،
حالانکہ ہر دماغ کی "wiring" مختلف ہے۔
“If we all learn differently, why do we teach the same way?”
یہ سوال ہمیں سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ تعلیم کا نظام ایک جیسا کیوں ہے،
جبکہ سیکھنے کا عمل ہر انسان کے لیے مختلف ہے۔
کچھ لوگ visual learners ہوتے ہیں، جو تصویروں اور ویڈیوز سے بہتر سیکھتے ہیں،
کچھ auditory learners ہوتے ہیں، جو سن کر سیکھتے ہیں،
اور کچھ kinesthetic learners — جو ہاتھ سے کام کر کے بہتر سمجھتے ہیں۔
تجربات دماغ کی ساخت بدل دیتے ہیں
Medina وضاحت کرتے ہیں کہ ہر تجربہ، ہر احساس،
دماغ کے نیورونز کے درمیان نئے تعلقات بناتا ہے۔
اگر آپ کسی بچے کو مسلسل حوصلہ دیتے ہیں تو اس کے دماغ میں
اعتماد اور تجسس کے راستے مضبوط ہوتے ہیں۔
لیکن اگر وہ ہمیشہ خوف یا دباؤ میں رہے تو
دماغ میں وہ نیٹ ورک بن جاتے ہیں جو ڈر اور ہچکچاہٹ پیدا کرتے ہیں۔
اسی لیے ماہرین کہتے ہیں کہ
“What you experience literally rewires your brain.”
یعنی آپ کے تجربات ہی آپ کے دماغ کو نیا ڈھانچہ دیتے ہیں۔
دماغ کی صلاحیت — کبھی ختم نہیں ہوتی
ایک اور حیران کن حقیقت یہ ہے کہ دماغ plastic ہے
یعنی یہ عمر کے ساتھ سخت نہیں ہوتا، بلکہ زندگی بھر بدل سکتا ہے۔
Medina کے مطابق:
“Your brain never stops growing and rewiring.”
اگر آپ کسی بھی عمر میں نیا ہنر سیکھنا چاہیں،
تو دماغ اس کے لیے نئے راستے بنا لیتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ بزرگ افراد بھی نئی زبانیں سیکھ سکتے ہیں،
اور بچے تیزی سے مختلف چیزوں کو سمجھ سکتے ہیں۔
عملی سبق — اپنی منفرد سوچ کو اپنائیں
Medina مشورہ دیتے ہیں کہ ہمیں دوسروں کی نقل کرنے کے بجائے
اپنی انفرادی سوچ کو پہچاننا اور اپنانا چاہیے۔
دنیا کے کامیاب ترین لوگ، جیسے Elon Musk، Steve Jobs، یا Einstein —
سب نے اپنی "different wiring" کو اپنی طاقت بنایا، کمزوری نہیں۔
اگر آپ کسی چیز میں مختلف ہیں،
تو یہی آپ کی پہچان اور طاقت ہے۔
“Don’t try to be someone else’s brain — master your own.”
"دماغ بور چیزوں پر توجہ نہیں دیتا"
( We Don’t Pay Attention to Boring Things)
کیا آپ نے کبھی محسوس کیا کہ کسی لیکچر، میٹنگ، یا کتاب کے دوران اچانک دماغ بھٹکنے لگتا ہے؟
آپ کی نظریں صفحے پر ہوتی ہیں، لیکن ذہن کہیں اور۔
John Medina کہتے ہیں کہ یہ آپ کی غلطی نہیں — بلکہ دماغ کا قدرتی اصول ہے۔
دماغ صرف انہی چیزوں پر توجہ دیتا ہے جو دلچسپ، نئی، یا جذباتی اثر رکھتی ہوں۔
“We don’t pay attention to boring things.”
— John Medina
یہ اصول سمجھنے کے بعد آپ اپنی سیکھنے، پڑھانے، اور کام کرنے کی صلاحیت کو کئی گنا بڑھا سکتے ہیں۔
دماغ کی توجہ کی حد — صرف 10 منٹ!
Medina کی تحقیق کے مطابق، انسانی دماغ مسلسل 10 منٹ سے زیادہ کسی چیز پر توجہ نہیں رکھ سکتا۔
اس کے بعد دماغ خود بخود “attention reset” مانگتا ہے۔
اسی لیے کلاس روم، میٹنگ، یا کسی ویڈیو میں دس منٹ کے بعد بوریت شروع ہو جاتی ہے۔
اگر آپ کسی کو 30 یا 60 منٹ تک متوجہ رکھنا چاہتے ہیں،
تو ہر 10 منٹ بعد کوئی نیا دلچسپ نکتہ، مثال، یا کہانی شامل کرنا ضروری ہے۔
“After 10 minutes, our brain starts to tune out — unless we give it a reason to care.”
دماغ "غیر ضروری" چیزوں کو فلٹر کرتا ہے
ہم روزانہ لاکھوں معلومات دیکھتے اور سنتے ہیں —
لیکن دماغ ان میں سے صرف چند خاص چیزوں کو محفوظ کرتا ہے۔
کیوں؟
کیونکہ دماغ کے لیے ہر چیز اہم نہیں۔
وہ صرف ان چیزوں پر دھیان دیتا ہے جن میں:
نیاپن (Novelty) ہو
جذباتی تعلق (Emotion) ہو
بقاء یا مقصد (Survival or Relevance) کا عنصر ہو
یعنی اگر کوئی چیز آپ کے احساسات کو نہیں چھوتی،
دماغ فوراً اسے “غیر ضروری” سمجھ کر نظر انداز کر دیتا ہے۔
کہانی — توجہ کا بہترین ذریعہ
John Medina کے مطابق، کہانیاں (Stories) دماغ کو متوجہ رکھنے کا سب سے طاقتور ذریعہ ہیں۔
کیونکہ کہانیاں صرف الفاظ نہیں ہوتیں، بلکہ وہ احساس، منظر، اور معنی ساتھ لاتی ہیں۔
جب آپ کوئی کہانی سنتے ہیں،
تو آپ کا دماغ ویسے ہی ردعمل دیتا ہے جیسے آپ خود اس تجربے سے گزر رہے ہوں۔
اسی لیے فلمیں، ڈرامے، یا قصے ہمارے ذہن میں زیادہ دیر تک رہتے ہیں
جبکہ خشک حقائق جلد بھول جاتے ہیں۔
“Stories are the brain’s favorite way of learning.”
دماغ کا “ایموشن سینٹر” — Amygdala
Medina بتاتے ہیں کہ جب ہم کوئی دلچسپ، خوفناک یا خوشگوار چیز دیکھتے ہیں
تو دماغ کا ایک حصہ — Amygdala — فوراً فعال ہو جاتا ہے۔
یہ حصہ طے کرتا ہے کہ کون سی چیز پر توجہ دینی ہے اور کون سی کو نظر انداز کرنا ہے۔
یعنی اگر آپ کسی چیز سے احساساتی تعلق پیدا کر لیں،
تو دماغ خود بخود اسے اہمیت دینے لگتا ہے۔
اسی لیے کوئی استاد اگر سبق کو جذبات یا کہانیوں کے ساتھ سکھائے
تو طلبہ زیادہ دیر تک یاد رکھتے ہیں۔
تعلیم اور کام میں توجہ کیسے بڑھائی جائے؟
Medina کے مطابق، چاہے آپ استاد ہوں، طالب علم، یا پروفیشنل —
توجہ بڑھانے کے لیے درج ذیل اصول اپنائیں:
ہر 10 منٹ بعد دماغ کو “ری سیٹ” دیں۔
کوئی دلچسپ سوال، کہانی، یا حقیقت بیان کریں۔
جذبات شامل کریں۔
خوشی، حیرت، یا ہمدردی جیسے احساسات دماغ کو متوجہ رکھتے ہیں۔
تصویری سوچ اپنائیں۔
الفاظ کے بجائے تصاویری مثالیں دماغ پر زیادہ اثر ڈالتی ہیں۔
بیک وقت کئی معلومات مت دیں۔
دماغ “multi-tasking” نہیں کر سکتا — ایک وقت میں ایک کام بہتر کرتا ہے۔
کہانی کے ذریعے پیغام پہنچائیں۔
کہانی یاد رہتی ہے، ڈیٹا نہیں۔
عملی زندگی میں مثال
سوچیں کہ آپ کسی کو نصیحت کرنا چاہتے ہیں کہ “وقت کی قدر کرو”۔
اگر آپ سیدھا کہہ دیں، تو شاید وہ سن کر بھول جائے۔
لیکن اگر آپ ایک کہانی سنائیں —
کسی شخص کی جو وقت ضائع کرتا رہا اور بعد میں پچھتایا —
تو سننے والا اس سبق کو کبھی نہیں بھولے گا۔
“The brain doesn’t remember facts — it remembers feelings.”
“یاد رکھنے کے لیے دہرانا ضروری ہے”
( Repeat to Remember)
کیا آپ نے کبھی ایسا محسوس کیا کہ کوئی چیز آپ نے کل سیکھی تھی،
آج ہی بھول گئی؟
آپ نے کوئی نیا لفظ، فارمولا یا خیال یاد کیا — لیکن اگلے دن ذہن خالی؟
یہ کوئی کمزوری نہیں، بلکہ دماغ کی قدرتی فطرت ہے۔
John Medina کہتے ہیں کہ:
“Memory is not fixed — it’s built through repetition.”
— John Medina
یعنی یادداشت کوئی اسٹوریج ڈرائیو نہیں جو ایک بار Save کرنے پر ہمیشہ رہے،
بلکہ ایک “جاندار عمل” ہے — جو بار بار دہرانے سے مضبوط بنتا ہے۔
دماغ یاد کیسے رکھتا ہے؟
Medina بتاتے ہیں کہ جب ہم کوئی نئی چیز سیکھتے ہیں،
تو دماغ میں ایک خاص راستہ (Neural Pathway) بنتا ہے۔
اگر آپ اس چیز کو بار بار دہراتے ہیں،
تو وہ راستہ مضبوط ہوتا جاتا ہے،
اور دماغ کے لیے اس معلومات کو دوبارہ یاد کرنا آسان ہو جاتا ہے۔
لیکن اگر آپ دہراتے نہیں —
تو وہ راستہ آہستہ آہستہ کمزور ہو کر ختم ہو جاتا ہے،
اور دماغ اسے “غیر ضروری معلومات” سمجھ کر ڈیلیٹ کر دیتا ہے۔
“Repetition is the mother of memory — without it, learning fades.”
دماغ کی “Memory Cycle” کیسے کام کرتی ہے؟
Medina یادداشت کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:
Short-Term Memory (عارضی یادداشت):
جب ہم کوئی چیز پہلی بار سنتے یا دیکھتے ہیں،
وہ صرف چند سیکنڈ سے چند منٹ تک دماغ میں رہتی ہے۔Long-Term Memory (مستقل یادداشت):
اگر آپ اس چیز کو بار بار دہراتے ہیں —
تو وہ معلومات “عارضی” سے “مستقل” یادداشت میں منتقل ہو جاتی ہے۔
یعنی دہرانا ہی وہ پل ہے جو “بھولنے” اور “ہمیشہ یاد رکھنے” کے درمیان قائم ہوتا ہے۔
تعلیم میں دہرانے کا جادو
Medina بتاتے ہیں کہ اگر کوئی استاد یا طالب علم
نئی چیز سیکھنے کے بعد ایک دن، ایک ہفتے اور ایک مہینے بعد دوبارہ اس کا جائزہ لے،
تو اس کی یادداشت کئی گنا بہتر ہو جاتی ہے۔
“If you review something within 24 hours, you remember up to 80%.
But if you don’t, you’ll forget 90% within a week.”
اسی لیے کامیاب طلبہ کبھی ایک بار پڑھ کر مطمئن نہیں ہوتے —
وہ بار بار دہراتے ہیں، کیونکہ انہیں یاد رہنے کی سائنس پتا ہوتی ہے۔
مثال
فرض کریں آپ نے قرآن کی ایک آیت یاد کی۔
پہلے دن اچھی طرح یاد ہوگئی،
لیکن اگر آپ نے دو دن تک دہرانا چھوڑ دیا —
تو دماغ نے اسے “عارضی یادداشت” سمجھ کر بھلا دیا۔
لیکن اگر آپ روز تھوڑا سا دہراتے رہے،
تو دماغ نے اسے “اہم” سمجھ کر لمبے عرصے کے لیے محفوظ کر لیا۔
یہی اصول ہر سیکھنے کے عمل پر لاگو ہوتا ہے —
چاہے وہ نیا ہنر ہو، زبان، یا زندگی کا کوئی سبق۔
دہرانے کے صحیح طریقے
Medina کے مطابق صرف دہرانا کافی نہیں،
بلکہ صحیح وقت پر دہرانا سب سے ضروری ہے۔
اسے وہ Spaced Repetition کہتے ہیں۔
یعنی:
پہلی بار سیکھنے کے فوراً بعد دہرائیں
پھر اگلے دن
پھر 3 دن بعد
پھر ایک ہفتے بعد
پھر ایک مہینے بعد
یہ وقفے یادداشت کو مضبوط کرنے کے لیے
دماغ کے قدرتی “بھولنے کے چکر” (Forgetting Curve) کو توڑ دیتے ہیں۔
کام کی جگہ اور روزمرہ زندگی میں اطلاق
یہ اصول صرف تعلیم میں نہیں بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں لاگو ہوتا ہے۔
اگر آپ کوئی نیا ہنر سیکھ رہے ہیں —
جیسے ویڈیو ایڈیٹنگ، ٹریڈنگ یا کوئی زبان —
تو روزانہ چند منٹ دہرانا آپ کو “ماہر” بنا سکتا ہے۔
اسی طرح رشتوں میں بھی “یاد دہانی” ضروری ہے —
پیار، شکریہ، یا تعریف کے چھوٹے جملے دہرانا
تعلقات کو مضبوط بناتا ہے۔
“Repetition doesn’t only build memory — it builds connection.”
“یاد رکھنے کے لیے ذہن کو صحیح طریقے سے تربیت دو”
(Rule 6: Remember to Repeat)
کیا آپ نے کبھی سوچا کہ کچھ باتیں برسوں بعد بھی یاد رہتی ہیں،
جبکہ کچھ چیزیں لمحوں میں ذہن سے غائب ہو جاتی ہیں؟
John Medina کے مطابق، یہ اس بات پر منحصر ہے کہ آپ کا دماغ معلومات کو کیسے “پروسیس” کرتا ہے۔
“Our brains are not designed to remember everything —
they remember what they find meaningful.”
— John Medina
یعنی دماغ صرف وہی بات یاد رکھتا ہے
جس سے کوئی جذباتی یا ذاتی تعلق جڑا ہو۔
محض الفاظ یا نمبرز نہیں، بلکہ احساسات، تجربات اور تصاویر دماغ پر گہرا اثر ڈالتی ہیں۔
یادداشت کا تین مرحلوں پر مشتمل نظام
Medina وضاحت کرتے ہیں کہ یاد رکھنے کا عمل تین حصوں پر مشتمل ہے:
Encoding (درج کرنا):
جب آپ کوئی چیز دیکھتے یا سنتے ہیں،
دماغ اسے پہلی بار ریکارڈ کرتا ہے۔
Storage (محفوظ کرنا):
وہ معلومات دماغ کے مختلف حصوں میں اسٹور ہوتی ہے —
بالکل ویسے جیسے کمپیوٹر میں فائل محفوظ ہوتی ہے۔
Retrieval (واپس لانا):
جب آپ کو وہ معلومات یاد آتی ہے،
دماغ اسے “ریٹرائیو” کرتا ہے — یعنی فائل کھول لیتا ہے۔
اگر ان تینوں میں سے کوئی عمل کمزور ہو جائے،
تو یادداشت کمزور پڑ جاتی ہے۔
یاد رکھنے کے 3 سنہری اصول
Medina کہتے ہیں کہ اگر آپ یہ تین عادتیں اپنا لیں
تو آپ کی یادداشت کئی گنا بہتر ہو سکتی ہے:
توجہ (Attention):
بغیر توجہ کے یاد رکھنا ممکن نہیں۔
دماغ ایک وقت میں صرف ایک چیز پر مکمل فوکس کر سکتا ہے۔
یعنی “ملٹی ٹاسکنگ” دراصل “فاسٹ فرگیٹنگ” ہے۔
جذباتی تعلق (Emotional Connection):
اگر کسی بات سے احساس جڑا ہو — جیسے محبت، خوف، خوشی یا فخر —
تو دماغ اسے زیادہ دیر تک محفوظ رکھتا ہے۔
دہرانا (Repetition):
جو کچھ سیکھا ہے، اسے وقفے وقفے سے دہرانا —
دماغ میں نئے نیورل کنیکشن بناتا ہے۔
دماغ تصویروں سے زیادہ سیکھتا ہے
Medina بتاتے ہیں کہ دماغ الفاظ سے زیادہ تصاویر یاد رکھتا ہے۔
جب آپ کسی چیز کو دیکھتے ہیں اور محسوس کرتے ہیں،
تو دماغ کے زیادہ حصے ایک ساتھ کام کرتے ہیں۔
اسی لیے وہ کہتے ہیں:
“If you want people to remember, show them — don’t just tell them.”
اسی اصول پر بہترین اساتذہ، پریزنٹیشنز، اور کتابیں بنائی جاتی ہیں —
جن میں الفاظ کے ساتھ تصاویر، مثالیں، اور کہانیاں شامل ہوں۔
تعلیم اور زندگی میں اطلاق
یہ اصول تعلیم، تربیت، اور خود-سیکھنے کے لیے حیرت انگیز فائدہ مند ہے۔
اگر آپ کوئی نئی اسکل سیکھ رہے ہیں —
جیسے گرافک ڈیزائن، ٹریڈنگ یا یوٹیوب کنٹینٹ کریشن —
تو صرف پڑھنا کافی نہیں،
تصاویر، آواز، اور جذباتی تعلق پیدا کریں۔
مثلاً:
جو کچھ پڑھیں، اس کا خلاصہ اپنی زبان میں بتائیں۔
ویژوئل نوٹس بنائیں۔
اور سب سے اہم — اسے دہراتے رہیں۔
اسلامی اور اخلاقی زاویہ
اسلام بھی بار بار یاد دہانی پر زور دیتا ہے۔
قرآن میں ارشاد ہے:
"وَذَكِّرْ فَإِنَّ الذِّكْرَى تَنفَعُ الْمُؤْمِنِينَ"
"یاد دہانی کرتے رہو، کیونکہ یاد دہانی ایمان والوں کے لیے فائدہ مند ہے۔"
یعنی دہرانا اور یاد دہانی نہ صرف دماغی تربیت ہے،
بلکہ روحانی ترقی کا بھی ذریعہ ہے۔
“اچھی نیند، بہترین سوچ”
( Sleep Well, Think Well)
کبھی آپ نے سوچا ہے کہ جب ہم تھکے ہوتے ہیں تو دماغ اتنا بھٹکا ہوا کیوں لگتا ہے؟
یا نیند پوری نہ ہونے پر ہم چھوٹی باتوں پر بھی غصہ کیوں کر بیٹھتے ہیں؟
John Medina کے مطابق، اس کی ایک ہی وجہ ہے — نیند، دماغ کے لیے آکسیجن کی طرح ضروری ہے۔
“Sleep is like a reset button for your brain.”
— John Medina
جب آپ سوتے ہیں تو دماغ خاموش نہیں ہوتا، بلکہ اندر سے صاف صفائی میں مصروف ہوتا ہے۔
یہ وہ وقت ہوتا ہے جب آپ کے دماغ کے “ریسائکلنگ سینٹرز” کام کرتے ہیں —
غیر ضروری معلومات کو حذف کرتے ہیں، اور اہم یادوں کو محفوظ کرتے ہیں۔
نیند دماغ کو کیا فائدہ دیتی ہے؟
John Medina اپنی ریسرچ میں بتاتے ہیں کہ نیند کے دوران دماغ میں تین حیرت انگیز کام ہوتے ہیں:
یادداشت کی مضبوطی (Memory Consolidation):
جو کچھ آپ نے دن بھر سیکھا، دیکھا یا محسوس کیا،
نیند کے دوران دماغ اسے مختصر یادداشت سے طویل یادداشت میں منتقل کرتا ہے۔
یعنی نیند وہ “پُل” ہے جو سیکھنے کو پائیدار بناتا ہے۔
ذہنی صفائی (Mental Cleanup):
جب آپ جاگتے ہیں، دماغ میں “ٹاکسن” جمع ہوتے ہیں —
یہ نیند کے دوران صاف ہوتے ہیں، بالکل ویسے جیسے گھر کی روزانہ صفائی۔
تخلیقی سوچ (Creative Processing):
اچھی نیند کے بعد دماغ کے “ایسوسی ایٹو نیٹ ورکس” زیادہ فعال ہوتے ہیں۔
اسی لیے اکثر لوگ کہتے ہیں کہ “میں نے اس کا حل خواب میں سوچ لیا!”
نیند کی کمی کے نقصانات
Medina کے مطابق، اگر آپ 6 گھنٹے سے کم نیند لیتے ہیں تو:
آپ کا فیصلہ کرنے کا معیار 40% تک گر جاتا ہے۔
دماغ کی توجہ اور یادداشت کمزور ہو جاتی ہے۔
موڈ خراب ہوتا ہے اور غصہ یا بےچینی بڑھتی ہے۔
کری ایٹیویٹی (تخلیقی صلاحیت) میں واضح کمی آتی ہے۔
یہ ایسے ہی ہے جیسے آپ فون چارج کیے بغیر پورا دن استعمال کرنے کی کوشش کریں۔
باہر سے فون آن ہے، مگر اندر سے “بیٹری لو” ہے۔
نیند کا صحیح دورانیہ
Medina کہتے ہیں کہ ہر انسان کے لیے نیند کا دورانیہ ایک جیسا نہیں۔
لیکن عام طور پر 7 سے 8 گھنٹے کی پرسکون نیند دماغ کے لیے ضروری ہے۔
اور سب سے اہم بات — وقت کا تسلسل (Consistency)۔
یعنی روزانہ ایک ہی وقت پر سونا اور جاگنا،
دماغ کو ریدم (rhythm) دیتا ہے، جس سے فوکس، توانائی، اور موڈ بہتر رہتا ہے۔
دلچسپ حقیقت
Medina بتاتے ہیں کہ دوپہر کے وقت، تقریباً 2 بجے کے آس پاس
ہمارا دماغ قدرتی طور پر کچھ دیر کے لیے سست ہو جاتا ہے۔
اسی لیے دنیا بھر میں لوگ “پاور نیپ” لیتے ہیں۔
محض 20 منٹ کی نیند
دماغی کارکردگی کو 30 فیصد تک بڑھا سکتی ہے!
لیکن یاد رکھیں — نیپ لمبی ہو تو الٹا اثر ہوتا ہے۔
اسلامی نقطہ نظر
اسلام میں بھی نیند کے اصول متوازن انداز میں سکھائے گئے ہیں۔
قرآن کہتا ہے:
"وَجَعَلْنَا نَوْمَكُمْ سُبَاتًا"
“اور ہم نے تمہاری نیند کو آرام کا ذریعہ بنایا۔” (سورہ النبأ: 9)
یعنی نیند جسم اور روح دونوں کی بحالی کے لیے ایک الٰہی نعمت ہے۔
رسول ﷺ رات کے ابتدائی حصے میں آرام کرتے،
اور فجر کے بعد تازگی اور شکر کے ساتھ دن کا آغاز فرماتے۔
یہی توازن صحت مند دماغ اور کامیاب زندگی کی بنیاد ہے۔
“تناؤ زدہ دماغ سیکھ نہیں سکتا”
( Stressed Brains Don’t Learn the Same Way)
کیا آپ نے کبھی محسوس کیا کہ جب آپ ذہنی دباؤ میں ہوتے ہیں تو کوئی بات یاد نہیں رہتی؟
یا کسی مسئلے کے دوران دماغ جیسے خالی سا لگتا ہے؟
یہ کوئی اتفاق نہیں — بلکہ دماغ کی قدرتی کیمسٹری کا نتیجہ ہے۔
John Medina کے مطابق،
“Chronic stress is like pouring sand into the brain’s machinery.”
یعنی لمبے عرصے کا تناؤ دماغ کے مشینری میں ریت بھر دینے جیسا ہے۔
تناؤ دماغ پر کیسے اثر ڈالتا ہے؟
Medina بتاتے ہیں کہ ہمارے دماغ میں ایک خاص حصہ ہوتا ہے — Hippocampus۔
یہی وہ جگہ ہے جہاں یادداشت محفوظ ہوتی ہے اور نئی چیزیں سیکھنے کا عمل ہوتا ہے۔
جب ہم تناؤ میں ہوتے ہیں، تو جسم Cortisol نامی ہارمون خارج کرتا ہے۔
یہ ہارمون وقتی طور پر مددگار تو ہے، مگر اگر لمبے عرصے تک رہے تو:
Hippocampus کو نقصان پہنچاتا ہے۔
یادداشت کو کمزور کرتا ہے۔
سیکھنے کی رفتار کو سست کرتا ہے۔
اور دماغی توازن کو بگاڑ دیتا ہے۔
یوں لگتا ہے جیسے دماغ کے “سیکھنے والے دروازے” آہستہ آہستہ بند ہو رہے ہوں۔
Stress کی تین بڑی اقسام
John Medina Stress کو تین بنیادی اقسام میں تقسیم کرتے ہیں:
Acute Stress (عارضی تناؤ):
جیسے کسی امتحان سے پہلے گھبراہٹ۔
یہ وقتی ہوتا ہے اور بعض اوقات دماغ کو بہتر کارکردگی کے لیے تیار کرتا ہے۔
Chronic Stress (مسلسل تناؤ):
یہ خطرناک ہوتا ہے —
مثلاً غربت، گھریلو جھگڑے، یا مسلسل خوف کی کیفیت۔
یہ دماغ کے نیورونز کو نقصان پہنچاتا ہے اور سیکھنے کی صلاحیت ختم کر دیتا ہے۔
Post-Stress Fatigue (بعد از تناؤ تھکن):
جب ذہن مسلسل دباؤ کے بعد “بند” ہونے لگتا ہے۔
انسان کسی چیز میں دلچسپی یا جذبہ کھو دیتا ہے۔
Medina کہتے ہیں:
“Stress is unavoidable, but chronic stress is a choice.”
یعنی دباؤ سے بچنا ممکن نہیں، مگر اس کے اثرات کم کرنا ہمارے اختیار میں ہے۔
انہوں نے اپنی ریسرچ میں دکھایا کہ وہ بچے جو پرامن اور محبت بھرے ماحول میں پروان چڑھتے ہیں،
ان کا دماغ تیزی سے ترقی کرتا ہے،
جبکہ مسلسل دباؤ میں رہنے والے بچوں کی یادداشت اور تخلیقی سوچ کمزور پڑ جاتی ہے۔
اسلام میں سکون کا راز
اسلام نے سکونِ قلب اور تسکینِ روح کے لیے ایسے اصول دیے جو جدید سائنس سے ہم آہنگ ہیں۔
قرآن کہتا ہے:
“اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ”
“جان لو! اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو سکون ملتا ہے۔” (سورۃ الرعد: 28)
یعنی جہاں Stress دماغ کو بند کرتا ہے،
وہیں ذکرِ الٰہی دماغ کو کھول دیتا ہے —
سوچنے، سمجھنے اور سیکھنے کے دروازے دوبارہ روشن کر دیتا ہے۔
Stress کم کرنے کے 5 عملی طریقے
John Medina کے مطابق، اگر آپ چاہتے ہیں کہ دماغ اپنی بہترین حالت میں رہے تو:
روزانہ کم از کم 30 منٹ کی واک یا ورزش کریں۔
ورزش Stress hormones کو کم کرتی ہے۔
گہری سانس (Deep Breathing) کی مشق کریں۔
صرف 5 منٹ کی گہری سانس لینے سے Cortisol لیول کم ہوتا ہے۔
خوشگوار نیند لیں۔
نیند دماغ کے اندرونی شور کو خاموش کر دیتی ہے۔
مثبت گفتگو اور دعا کو اپنی عادت بنائیں۔
دعا صرف روح کو نہیں بلکہ دماغی کیمسٹری کو بھی بدل دیتی ہے۔
Social Support (رابطہ اور بات چیت) رکھیں۔
تنہائی Stress کو بڑھاتی ہے، جبکہ محبت اور دوستی اسے کم کرتی ہے۔
“دماغ کو زیادہ حواس سے جگاؤ”
( Stimulate More of the Senses)
کیا آپ نے کبھی محسوس کیا کہ کوئی خوشبو آپ کو ماضی کے کسی لمحے میں لے جاتی ہے؟
یا کسی گانے کی دھن سن کر پرانی یادیں تازہ ہو جاتی ہیں؟
یہ سب دماغ کے Multi-Sensory Learning System کی طاقت ہے۔
John Medina کہتے ہیں:
“The more senses you engage, the more brainpower you use.”
یعنی جتنے زیادہ حواس شامل ہوں، اتنا ہی دماغ زیادہ طاقت سے کام کرتا ہے۔
دماغ صرف دیکھتا یا سنتا نہیں — بلکہ “محسوس” بھی کرتا ہے
ہم سمجھتے ہیں کہ سیکھنا صرف پڑھنے یا سننے سے ہوتا ہے،
مگر حقیقت یہ ہے کہ دماغ ایک مکمل احساساتی نظام ہے۔
جب آپ کسی چیز کو بیک وقت دیکھتے، سنتے، چھوتے اور سونگھتے ہیں،
تو دماغ ایک سے زیادہ حصوں کو فعال کرتا ہے —
اور یہی عمل یادداشت کو مضبوط اور دیرپا بناتا ہے۔
مثلاً:
اگر آپ صرف لفظ “Coffee” پڑھیں تو آپ کا دماغ ایک لفظ دیکھتا ہے۔
مگر اگر آپ “Coffee” کی خوشبو محسوس کریں، اس کا ذائقہ چکھیں اور اس کی آواز سنیں،
تو آپ کے دماغ کے پانچ مختلف حصے بیک وقت کام کرنے لگتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ عملی تجربات (Experiential Learning) ہمیشہ کتابی علم سے زیادہ دیر تک یاد رہتے ہیں۔
Multi-Sensory Learning کے فائدے
John Medina کے مطابق، جب ہم ایک سے زیادہ حواس استعمال کرتے ہیں، تو:
یادداشت تین گنا مضبوط ہو جاتی ہے۔
سیکھنے کا عمل تیز ہو جاتا ہے۔
دماغ میں نئے نیورونز بنتے ہیں۔
Creativity (تخلیقی سوچ) جاگ جاتی ہے۔
اور سب سے بڑھ کر — دماغ سیکھنے سے لطف اندوز ہوتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ کامیاب اساتذہ، اسپیکرز، اور ٹرینرز
ہمیشہ تصاویر، آواز، حرکات، اور عملی مثالوں کا استعمال کرتے ہیں۔
Medina کی تحقیق سے حیران کن حقائق
John Medina نے اپنی تحقیق میں پایا کہ:
اگر کوئی شخص صرف سن کر کچھ سیکھے تو وہ 3 دن بعد 10% یاد رکھتا ہے۔
اگر وہ دیکھ بھی لے تو یادداشت 35% تک بڑھ جاتی ہے۔
اور اگر وہ دیکھے، سنے اور محسوس بھی کرے —
تو یادداشت 65–70% تک بڑھ جاتی ہے!
اصول نمبر 10: “نظر سب پر غالب ہے”
(Rule 10: Vision Trumps All Other Senses)
John Medina کہتے ہیں:
“Vision trumps all other senses.”
یعنی “دیکھنے کی طاقت باقی تمام حواس پر غالب ہے۔”
دماغ میں جو چیز سب سے زیادہ جگہ گھیرتی ہے،
وہ بینائی (Vision) کا نظام ہے۔
انسانی دماغ کا تقریباً نصف حصہ صرف “دیکھنے” کے عمل سے متعلق ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم جو دیکھتے ہیں، وہی سب سے بہتر یاد رکھتے ہیں۔
ہمارا دماغ تصویروں میں سوچتا ہے
John Medina بتاتے ہیں کہ جب ہم کوئی چیز دیکھتے ہیں،
تو ہمارا دماغ اسے صرف “لفظ” کے طور پر نہیں بلکہ ایک مکمل تصویر (Image) کے طور پر محفوظ کرتا ہے۔
مثلاً، اگر آپ “سیب” کا لفظ پڑھیں تو دماغ ایک لفظ پہچانتا ہے۔
لیکن اگر آپ سیب کی تصویر دیکھیں تو دماغ نہ صرف رنگ، شکل اور روشنی کو یاد رکھتا ہے
بلکہ اس کے ذائقے، خوشبو، اور احساس کو بھی زندہ کر دیتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہم الفاظ بھول جاتے ہیں، مگر تصویریں ہمیشہ یاد رہتی ہیں۔
Vision + Memory = Superpower
تحقیقات کے مطابق:
جو کچھ ہم صرف سنتے ہیں، اس کا 3 دن بعد ہمیں صرف 10% یاد رہتا ہے۔
جو کچھ ہم دیکھتے ہیں اور سنتے ہیں، اس کا 65% یاد رہتا ہے۔
یہی “Visual Memory” کی طاقت ہے۔
دماغ تصویروں کے ذریعے معلومات کو زیادہ تیزی سے اور مؤثر طریقے سے محفوظ کرتا ہے۔
اسی لیے بہترین کہانیاں، اشتہارات، اور تعلیمی مواد
ہمیشہ Visualization پر انحصار کرتے ہیں۔
سیکھنے میں Visualization کی اہمیت
Medina کے مطابق، اگر ہم کسی مضمون، سبق یا نظریے کو
تصویر، خاکہ یا گرافکس کی صورت میں پیش کریں،
تو دماغ اسے کئی گنا تیزی سے سمجھتا ہے۔
مثلاً:
اگر آپ کسی جملے کو یاد کرنا چاہتے ہیں، تو اس کی تصویر ذہن میں بنائیں۔
اگر آپ کوئی مشکل نظریہ سمجھانا چاہتے ہیں، تو ڈایاگرام یا نقشہ استعمال کریں۔
اگر آپ کوئی کہانی لکھ رہے ہیں، تو منظر نگاری (Imagery) کا سہارا لیں۔
یہی وہ چیز ہے جو سادہ الفاظ کو جیتا جاگتا تجربہ بنا دیتی ہے۔
قرآن مجید نے بھی “نظر” اور “بصارت” پر خاص زور دیا ہے:
“أَفَلَا يَنْظُرُونَ إِلَى الْإِبِلِ كَيْفَ خُلِقَتْ”
(کیا وہ نہیں دیکھتے کہ اونٹ کیسے پیدا کیے گئے؟) — سورۃ الغاشیہ: 17
یہ آیت ہمیں سکھاتی ہے کہ مشاہدہ (Observation) صرف دیکھنے کا عمل نہیں،
بلکہ غور و فکر کا دروازہ ہے۔
اللہ نے ہمیں دنیا کو دیکھنے کے لیے آنکھیں دیں —
تاکہ ہم صرف نظر نہ کریں بلکہ سمجھیں، سوچیں، اور سیکھیں۔
کامیابی میں Visual Thinking کا کردار
بڑی کامیاب شخصیات — جیسے Elon Musk، Steve Jobs، اور Walt Disney —
سب “Visual Thinkers” تھے۔
وہ اپنے خیالات کو ذہنی تصویروں میں بدل دیتے تھے۔
Steve Jobs ہر نئی پروڈکٹ کو پہلے ذہن میں “دیکھتا” تھا۔
Walt Disney اپنی فلموں کے منظر ایک ذہنی کینوس پر بناتا تھا۔
اور Elon Musk SpaceX کے راکٹ کو پہلے ذہنی تصور میں تخلیق کرتا ہے، پھر حقیقت میں۔
John Medina کا کہنا ہے:
“If you can visualize your goal, your brain starts working to achieve it.”
یعنی “اگر آپ اپنے مقصد کو واضح طور پر دیکھ لیں، تو دماغ اسے حاصل کرنے کے لیے خود بخود کام شروع کر دیتا ہے۔”
اپنے خوابوں کی Visualization کریں۔
ہر دن اپنے مقصد کو تصویر کی صورت میں ذہن میں لائیں۔
پڑھائی یا Presentation میں تصاویر شامل کریں۔
دماغ تصویروں سے محبت کرتا ہے۔
Mind Maps بنائیں۔
یہ یادداشت بڑھانے کا بہترین طریقہ ہے۔
کامیابی کا منظر دیکھیے۔
اپنی منزل کو ایسے دیکھیں جیسے وہ حقیقت بن چکی ہو۔
بینائی دماغ کی سب سے طاقتور حس ہے۔
دماغ تصویروں کے ذریعے بہتر یاد رکھتا ہے۔
Visualization سیکھنے، سمجھنے اور کامیابی کا راز ہے۔
قرآن بھی ہمیں دنیا کو “دیکھنے” اور “غور کرنے” کی دعوت دیتا ہے۔
“دنیا اُن کی نہیں جو صرف خواب دیکھتے ہیں،
بلکہ اُن کی ہے جو اپنے خوابوں کو دیکھ کر حقیقت میں بدلنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔”
.png)
.png)