یہ کہانی ایک چھوٹے سے گاؤں کی ہے جہاں بجلی کا کوئی انتظام نہیں تھا۔ گاؤں کی شامیں سورج کے ڈھلتے ہی اندھیرے کی چادر اوڑھ لیتی تھیں۔ لوگ اپنی ضرورت کے مطابق لالٹین یا چراغ جلا کر اپنے کام کرتے اور جلد ہی سو جاتے۔ لیکن ایک شخص تھا جو ہر رات، جب پورا گاؤں نیند کے مزے لے رہا ہوتا، اپنے ہاتھ میں چراغ لیے گاؤں کی سنسان گلیوں میں چلتا رہتا۔
اس شخص کا نام رحمت علی تھا، اور لوگ اسے "چراغ والا بابا" کہتے تھے۔ وہ عمر رسیدہ تھا، مگر اس کی آنکھوں میں ایک عجب سی چمک تھی۔ اس کے چہرے پر جھریاں تھیں، لیکن ان جھریوں میں برسوں کی دانش اور شفقت جھلکتی تھی۔ گاؤں والے اکثر اس کا مذاق اڑاتے اور کہتے، "بابا، تمہیں کیوں اندھیری رات میں چراغ جلا کر گاؤں کی گلیوں میں چلنے کی ضرورت پڑتی ہے؟ تمہیں تو آرام کرنا چاہیے رحمت علی بس مسکرا کر جواب دیتا، "یہ چراغ ان کے لیے ہے جو اندھیرے میں راستہ بھٹک جاتے ہیں۔ اگر ایک بھی شخص میرے چراغ کی روشنی سے منزل پا لے، تو میرا مقصد پورا ہو جاتا ہے۔
لوگ اس بات کو مذاق سمجھ کر نظرانداز کر دیتے، لیکن وہ اپنی عادت سے باز نہ آیا۔ ہر رات وہ اپنے چراغ کو جلا کر گاؤں کی گلیوں میں نکل جاتا۔ بعض اوقات اس کی روشنی کسی مسافر کے لیے سہارا بن جاتی، اور کبھی کبھار وہ کسی بوڑھے یا بیمار کو ان کے گھر تک پہنچا دیتا۔یک رات کی بات ہے، سردیوں کا موسم تھا اور آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے۔ بارش ہونے کے امکانات تھے، اور سردی کی شدت نے گاؤں کو مزید سنسان کر دیا تھا۔ ایسے میں ایک نوجوان مسافر، جو کسی دوسرے گاؤں سے آیا تھا، اندھیرے میں راستہ بھٹک گیا۔
وہ گاؤں کے اندر پہنچنے کی کوشش کر رہا تھا، مگر کچھ بھی نظر نہیں آ رہا تھا۔مسافر تھکن سے بے حال تھا اور اسے لگا کہ وہ یہ رات باہر ہی گزارنے پر مجبور ہوگا۔ اچانک، دور سے ایک روشنی دکھائی دی۔ وہ روشنی ایک چراغ کی تھی جو اندھیرے کو چیرتا ہوا اس کی طرف بڑھ رہا تھا۔ یہ رحمت علی تھا، جو حسبِ معمول گاؤں کی گلیوں میں چراغ لیے چل رہا تھا۔سافر نے اپنی پریشانی بتائی اور راستہ پوچھا۔
رحمت علی نے نہ صرف اسے راستہ دکھایا بلکہ اسے اپنے ساتھ گاؤں کے ایک کونے میں لے گیا جہاں ایک چھوٹی سی جھونپڑی میں گرمی کا انتظام تھا۔ اس نے مسافر کو چائے پلائی، اور جب صبح ہوئی، تو اسے منزل تک پہنچایا۔جب مسافر نے گاؤں والوں کو یہ بات بتائی تو وہ حیران رہ گئے۔ وہی لوگ جو رحمت علی کا مذاق اڑاتے تھے، اب اس کی تعریف کرنے لگے۔ انہوں نے سمجھا کہ اس کی اندھیری راتوں میں جلائے گئے چراغ نے نہ جانے کتنے لوگوں کو سہارا دیا ہوگا، جن کا کسی کو علم بھی نہیں تھا۔
سبق
یہ کہانی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ بے غرض خدمت کرنے والے لوگ ہمیشہ دوسروں کی زندگیوں میں روشنی پھیلاتے ہیں، چاہے لوگ ان کی قدر کریں یا نہ کریں۔ وہ چراغ کی مانند ہوتے ہیں، جو اندھیرے میں بھی روشنی بانٹتے رہتے ہیں۔ ہمیں ایسے لوگوں کی قدر کرنی چاہیے اور ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
.png)
.png)