ایک عظیم جستجوحضرت ابراہیمؑ کی کہانی انسانی تاریخ میں توحید (اللہ کی واحدانیت) کے سب سے بڑے مبلغ کی داستان ہے۔ وہ ایک ایسی قوم میں پیدا ہوئے جو بت پرستی میں مبتلا تھی، جہاں لوگ اپنے ہاتھوں سے تراشے ہوئے پتھروں کے مجسموں کو اپنا خدا مانتے تھے۔ لیکن حضرت ابراہیمؑ کی فطرت پاکیزہ تھی، ان کا دل اور عقل دونوں یہ ماننے کے لیے تیار نہیں تھے کہ بے جان پتھر کسی کے خالق اور رازق ہو سکتے ہیں۔ یہی جستجو انہیں سچائی کی تلاش میں لے کر نکلی، اور آخرکار اللہ نے انہیں اپنا برگزیدہ نبی بنایا۔
حضرت ابراہیمؑ کا والد آزر ایک مشہور بت تراش تھا، جو بڑے بڑے بت بنا کر بیچتا اور لوگوں کو ان کی عبادت کے لیے تیار کرتا۔ حضرت ابراہیمؑ نے اپنی ابتدائی زندگی میں ہی دیکھا کہ یہ بت نہ بول سکتے ہیں، نہ چل سکتے ہیں، اور نہ کسی کو کوئی نفع یا نقصان پہنچا سکتے ہیں، پھر بھی لوگ ان کے سامنے سجدہ کرتے ہیں اور ان سے حاجات مانگتے ہیں۔
ایک دن حضرت ابراہیمؑ نے اپنے والد سے کہا:
"اے میرے والد! آپ ان چیزوں کی پرستش کیوں کرتے ہیں جو نہ سنتی ہیں، نہ دیکھتی ہیں، اور نہ ہی کسی کا بھلا یا برا کر سکتی ہیں؟"
لیکن آزر نے ان کی بات ماننے کے بجائے غصے میں آ کر کہا:
"اے ابراہیم! کیا تم میرے معبودوں سے روگردانی کرتے ہو؟ اگر تم باز نہ آئے تو میں تمہیں سخت سزا دوں گا!"
یہ بات سن کر حضرت ابراہیمؑ نے اپنے والد کو ادب سے جواب دیا اور اللہ سے دعا کی کہ ان کی قوم کو ہدایت عطا ہو۔
حضرت ابراہیمؑ کو اللہ کی طرف سے ایسی عقل دی گئی تھی جو حقیقت کی تلاش میں سرگرداں تھی۔ وہ سوچتے تھے کہ اگر یہ بت خدا نہیں ہیں تو پھر حقیقی خدا کون ہے؟
ایک رات انہوں نے ایک روشن ستارے کو دیکھا اور کہا:
"یہ میرا رب ہو سکتا ہے؟"
لیکن جب ستارہ غروب ہو گیا تو وہ بولے:
"میں ڈوبنے والوں کو خدا نہیں مان سکتا۔"
پھر انہوں نے چاند کو دیکھا، جو اور بھی بڑا اور روشن تھا، تو کہا:
"یہ میرا رب ہو سکتا ہے؟"
لیکن جب وہ بھی غروب ہو گیا تو انہوں نے کہا:
"اگر میرا رب مجھے ہدایت نہ دے تو میں بھی گمراہوں میں شامل ہو جاؤں گا۔"
پھر انہوں نے سورج کو دیکھا، جو سب سے بڑا اور روشن تھا، اور کہا:
"یہ سب سے بڑا ہے، شاید یہی میرا رب ہو؟"
لیکن جب وہ بھی ڈوب گیا تو حضرت ابراہیمؑ نے اعلان کیا:
"میں ان سب سے بیزار ہوں، میں صرف اس خدا کی عبادت کروں گا جس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا!"
حضرت ابراہیمؑ جانتے تھے کہ ان کی قوم گمراہی میں مبتلا ہے، اس لیے انہوں نے انہیں راہِ راست پر لانے کے لیے ایک انوکھا منصوبہ بنایا۔
ایک دن جب سب لوگ ایک بڑے میلے میں چلے گئے تو حضرت ابراہیمؑ نے موقع دیکھ کر بت خانے میں داخل ہو کر سارے بتوں کو توڑ ڈالا، صرف سب سے بڑے بت کو چھوڑ دیا اور اس کے ہاتھ میں کلہاڑی رکھ دی۔
جب لوگ واپس آئے اور اپنے معبودوں کو ٹوٹا ہوا پایا تو حیران رہ گئے۔ وہ ایک دوسرے سے کہنے لگے:
"یہ کس نے کیا؟ یقیناً یہ ابراہیم ہی کا کام ہے!"
جب حضرت ابراہیمؑ کو بلایا گیا تو انہوں نے نہایت حکمت سے کہا:
"یہ کام اس بڑے بت نے کیا ہوگا، اگر یہ بت بول سکتے ہیں تو ان سے پوچھ لو!"
یہ سن کر سب لوگ شرمندہ ہو گئے، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہ بت نہ بول سکتے ہیں اور نہ ہی کسی کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ لیکن بجائے ہدایت حاصل کرنے کے وہ غصے میں آ گئے اور کہا:
"ابراہیم! تمہیں ہمارے معبودوں کو توڑنے کی سزا ملے گی!"
وم کے سرداروں نے فیصلہ کیا کہ حضرت ابراہیمؑ کو آگ میں ڈال دیا جائے تاکہ دوسرے لوگ ان کے راستے پر نہ چلیں۔ انہوں نے ایک بہت بڑی آگ جلائی، جو اتنی بھڑکتی ہوئی تھی کہ اس کے قریب جانا بھی مشکل تھا۔ پھر ایک عظیم منجنیق بنائی گئی اور حضرت ابراہیمؑ کو اس میں باندھ کر آگ میں پھینکنے کی تیاری کی گئی۔
جیسے ہی انہیں آگ میں ڈالنے کا وقت آیا، حضرت ابراہیمؑ نے اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے صرف یہ دعا کی:
"حسبی اللہ و نعم الوکیل" (اللہ میرے لیے کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے)
جیسے ہی حضرت ابراہیمؑ کو آگ میں پھینکا گیا، اللہ نے حکم دیا:
"اے آگ! ابراہیم کے لیے ٹھنڈی اور سلامتی والی بن جا!"
سب لوگ حیران رہ گئے جب انہوں نے دیکھا کہ آگ نے حضرت ابراہیمؑ کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا! وہ سلامت اور خوش و خرم کھڑے تھے، گویا کچھ ہوا ہی نہیں۔ یہ ایک کھلا معجزہ تھا، لیکن ان کی قوم نے پھر بھی ایمان نہ لایا۔
حضرت ابراہیمؑ نے اپنی قوم کو چھوڑ دیا اور اللہ کے حکم پر چل پڑے۔ اللہ نے ان کو کئی عظیم انعامات سے نوازا:انہیں حضرت اسماعیلؑ اور حضرت اسحاقؑ جیسے عظیم بیٹے عطا کیے، جو خود بھی نبی بنے۔انہوں نے اللہ کے حکم سے خانہ کعبہ کی تعمیر کی اور اسے عبادت کے لیے وقف کیا۔وہ اللہ کے سب سے برگزیدہ نبیوں میں شامل ہوئے اور دنیا کے تمام مذاہب میں انہیں عزت دی جاتی ہے۔
سبق: حضرت ابراہیمؑ کی کہانی سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟
سچائی کی تلاش: اگر ہم سچے دل سے حق کی تلاش کریں تو اللہ ہمیں سیدھا راستہ دکھاتا ہے۔
اللہ پر بھروسہ: اگر ہم اللہ پر بھروسہ کریں تو وہ ہمیں ہر مشکل سے بچا سکتا ہے۔
صبر اور قربانی: دین کی راہ میں آزمائشیں آتی ہیں، لیکن کامیابی انہی کو ملتی ہے جو ثابت قدم رہتے ہیں۔
توحید کی اہمیت: صرف اللہ ہی لائقِ عبادت ہے، اور اسی پر ایمان رکھنا ہماری کامیابی کی ضمانت ہے۔
یہ کہانی آج بھی ہمیں سکھاتی ہے کہ ہمیں اپنی زندگی میں توحید پر مضبوطی سے قائم رہنا چاہیے اور کسی بھی آزمائش میں اللہ پر بھروسہ کرنا چاہیے۔
کیا آپ کو یہ کہانی پسند آئی؟ اپنی رائے کا اظہار ضرور کریں!
.png)
.png)