بہت پہلے کی بات ہے، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں ایک شخص رہتا تھا جس کا نام سالم تھا۔ وہ اپنی نیکی، رحم دلی اور سخاوت کی وجہ سے پورے علاقے میں مشہور تھا۔ اگر کوئی بھوکا ہوتا، تو سالم سب سے پہلے اس کے لیے کھانے کا انتظام کرتا۔ اگر کسی کے پاس پہننے کے لیے کپڑے نہ ہوتے، تو وہ اپنی کمائی سے ان کے لیے لباس کا بندوبست کرتا۔
مگر عجیب بات یہ تھی کہ سالم خود بہت غریب تھا۔ اس کے پاس اچھے کپڑے نہیں تھے، نہ ہی کھانے کے لیے اچھا کھانا۔ وہ اکثر مزدوری کرتا، جو بھی کماتا، زیادہ تر دوسروں کی مدد میں خرچ کر دیتا۔ کئی بار اس کے اپنے گھر میں فاقے ہونے لگے، مگر اس نے کبھی کسی سے شکایت نہیں کی۔
مایوسی اور سوال
ایک دن سالم کو خیال آیا کہ وہ ہمیشہ دوسروں کے لیے بھلائی کرتا ہے، مگر اس کی اپنی حالت نہیں بدلتی۔ وہ سوچنے لگا کہ کیا اللہ اس کی نیکیوں کو قبول نہیں کرتا؟ کیا اللہ اس سے راضی نہیں ہے؟
یہ خیالات اسے بے چین کرنے لگے۔ آخرکار، اس نے فیصلہ کیا کہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس جائے گا اور ان سے سوال کرے گا کہ اللہ اس کے ساتھ ایسا کیوں کر رہا ہے؟
وہ کئی دن کا سفر طے کر کے حضرت موسیٰ علیہ السلام تک پہنچا اور عاجزی سے کہا:
"اے اللہ کے نبی! میں ہمیشہ نیکی کرتا ہوں، مگر میری اپنی زندگی غربت میں گزر رہی ہے۔ کیا اللہ میری مدد نہیں کرے گا؟ کیا میری نیکیاں قبول نہیں ہو رہی ہیں؟"
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ سے دعا کی اور اس شخص کی حالت کے بارے میں سوال کیا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی نازل ہوئی:
"اے موسیٰ! اس شخص کی قسمت میں دنیا کی دولت صرف آدھی زندگی کے لیے لکھی گئی ہے۔ اس سے پوچھ لو کہ وہ دولت زندگی کے پہلے حصے میں چاہتا ہے یا دوسرے حصے میں؟"
بڑی آزمائش
جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے سالم کو اللہ کا پیغام سنایا، تو وہ گہری سوچ میں پڑ گیا۔ اگر وہ دولت پہلے مانگتا، تو اس کی زندگی کا دوسرا حصہ غربت میں گزرے گا۔ اور اگر وہ دولت بعد میں مانگتا، تو جوانی غربت میں گزارنی پڑے گی۔
کافی دیر سوچنے کے بعد، اس نے جواب دیا:
"اے اللہ کے نبی! میں چاہتا ہوں کہ میری زندگی کا پہلا حصہ غربت میں گزرے، اور آخری حصہ خوشحالی میں!"
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ سے یہ بات عرض کی، اور اللہ نے فرمایا:
"ٹھیک ہے، ہم نے اس بندے کے لیے دولت کا دوسرا حصہ مقرر کر دیا ہے۔"
سالم کی صبر آزمائی
اب سالم کی آزمائش شروع ہو گئی۔ وہ پہلے سے بھی زیادہ مشکلات میں گھر گیا۔ مزدوری کم ملتی، کبھی کبھی کھانے کو کچھ نہ ہوتا، مگر وہ اللہ کی رضا میں راضی رہا۔ وہ پہلے کی طرح لوگوں کی مدد کرتا رہا، چاہے خود بھوکا رہنا پڑے۔
یہ دیکھ کر گاؤں کے لوگ حیران ہوتے اور کہتے:
"یہ شخص خود اتنا غریب ہے، مگر پھر بھی دوسروں کی مدد کر رہا ہے!"
مگر سالم کو یقین تھا کہ اللہ کبھی کسی کی نیکی کو ضائع نہیں کرتا۔
خوشحالی کا آغاز
کئی سال کی آزمائش کے بعد، سالم کی قسمت کا دوسرا حصہ شروع ہوا۔ ایک دن، کسی نیک شخص نے اسے ایک بڑا کام دیا، اور سالم کو غیر متوقع طور پر بہت زیادہ رقم ملی۔ پھر آہستہ آہستہ اس کی زندگی بدلنے لگی۔
وہ جو پہلے دوسروں کے لیے چند سکے دے سکتا تھا، اب غریبوں کے لیے کھانے کے بڑے دسترخوان لگانے لگا۔ وہ جو خود پرانے کپڑے پہنتا تھا، اب سینکڑوں مسکینوں کو نئے لباس فراہم کر رہا تھا۔ اللہ نے اسے بے حساب دولت عطا کی، مگر اس کا دل پہلے جیسا ہی نرم اور رحم دل رہا۔
اللہ کا خاص انعام
جب کئی سال گزر گئے اور سالم کا وقت قریب آیا، تو اللہ نے فرشتوں سے فرمایا:
"یہ بندہ دولت ملنے کے بعد بھی نیکی سے باز نہیں آیا، اس لیے میں نے اس کے لیے خوشحالی کو ہمیشہ کے لیے لکھ دیا!"
یوں سالم کی زندگی کے آخری لمحات بھی امن، خوشحالی اور برکت کے ساتھ گزرے، اور جب وہ اس دنیا سے گیا تو لوگ اسے نیکی، سخاوت اور صبر کی علامت کے طور پر یاد کرنے لگے۔
سبق
نیکی کبھی ضائع نہیں جاتی، اللہ ہمیشہ بدلہ دیتا ہے۔
اگر مشکلات آئیں، تو صبر کرنا چاہیے، کیونکہ اللہ ہر چیز کا بہترین وقت مقرر کرتا ہے۔
دولت کا اصل فائدہ یہ ہے کہ اسے اللہ کی راہ میں خرچ کیا جائے۔
اگر اللہ آپ کو آزمائے، تو ثابت قدم رہیں، کیونکہ اللہ کے فیصلے بہترین ہوتے ہیں!
یہ کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ اگر ہم اللہ پر بھروسہ رکھیں اور نیکی کرتے رہیں، تو اللہ ہمیں ایسے طریقوں سے نوازتا ہے جو ہم سوچ بھی نہیں سکتے!
.png)
.png)