مدینہ منورہ کی ایک پرانی گلی میں ایک بوڑھی عورت رہتی تھی۔ وہ نابینا تھی، جسمانی طور پر کمزور اور تنہا، جس کا دنیا میں کوئی سہارا نہ تھا۔ وہ لوگوں کے رحم و کرم پر تھی، کیونکہ نہ تو اس کے پاس روزگار تھا اور نہ ہی کوئی مددگار۔ مگر اس کے دل میں ایک سختی تھی وہ ہمیشہ نبی کریم ﷺ کے خلاف باتیں کرتی، ان کے بارے میں غلط الفاظ استعمال کرتی اور لوگوں کو ان سے دور رہنے کی تلقین کرتی۔ وہ یہ سمجھتی تھی کہ نبی کریم ﷺ نے عرب کے پرانے رسم و رواج کو بدلنے کی کوشش کی ہے اور اس لیے وہ انہیں پسند نہیں کرتی تھی۔
ہر روز، ایک نوجوان خاموشی سے آتا، اس کے دروازے پر کھانے کا سامان رکھتا، پانی کے برتن بھرتا اور بغیر کوئی آواز پیدا کیے وہاں سے چلا جاتا۔ بوڑھی عورت نے کبھی اسے نہیں دیکھا تھا، لیکن وہ ہمیشہ اس نادیدہ مددگار کے لیے دعا کرتی تھی۔ وہ سوچتی کہ شاید کوئی فرشتہ یا نیک دل انسان ہے جو اللہ کے لیے اس کی مدد کرتا ہے۔
مددگار کون تھا؟
یہ معمول کئی مہینوں بلکہ سالوں تک جاری رہا۔ بوڑھی عورت کو یہ محسوس ہونے لگا کہ اس کا کوئی اپنا ہے جو اس کا خیال رکھتا ہے۔ اگرچہ وہ ہمیشہ نبی کریم ﷺ کے خلاف بولتی رہتی تھی، لیکن اس کا مددگار کبھی اس سے کچھ نہیں کہتا تھا، نہ اس کی باتوں کا برا مانتا تھا اور نہ ہی اسے روکتا تھا۔
ایک دن، جب وہ نوجوان نہیں آیا، تو بوڑھی عورت کو بےچینی ہونے لگی۔ وہ دروازے پر بیٹھی رہی اور ہر آہٹ پر اس امید سے کان لگاتی کہ شاید اس کا مددگار آجائے۔ لیکن وہ نہ آیا۔
کچھ وقت بعد، کسی اور شخص نے آکر اس کی مدد کی۔ اس نے کھانے کا سامان رکھا، پانی بھرا اور جانے لگا۔ بوڑھی عورت نے کانپتے ہاتھوں سے اس کا چہرہ چھوا اور حیرانی سے بولی:
"تم وہ نہیں ہو جو ہمیشہ میری مدد کرتا تھا، وہ کہاں ہے؟ کیا تمہیں معلوم ہے کہ وہ کون تھا؟"
یہ سن کر اس شخص نے ایک گہرا سانس لیا اور بولا:
"ماں! وہ جو روز تمہاری مدد کرتا تھا، وہ کوئی عام شخص نہیں تھا۔ وہ محمد ﷺ تھے، جن کے خلاف تم ہمیشہ بولتی رہتی تھیں!"
یہ سن کر بوڑھی عورت پر سکتہ طاری ہوگیا۔ جیسے ہی اس حقیقت کا علم ہوا، اس کے ہاتھ لرزنے لگے، آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور دل میں ندامت اور شرمندگی کے جذبات ابھر آئے۔
"کیا؟! کیا واقعی وہ محمد ﷺ تھے؟ وہی نبی، جن کے بارے میں میں ہمیشہ غلط باتیں کرتی تھی؟"
اس لمحے، بوڑھی عورت کو اپنی ساری زندگی کے الفاظ اور رویے یاد آنے لگے۔ اسے وہ تمام تلخ باتیں یاد آئیں جو اس نے نبی کریم ﷺ کے خلاف کہی تھیں، اور وہ تمام لمحے جب وہ انہیں برا بھلا کہتی رہی تھی۔ لیکن اس کے باوجود، انہوں نے کبھی برا نہیں منایا، کبھی اس کے خلاف ایک لفظ نہیں کہا، بلکہ خاموشی سے اس کی خدمت کرتے رہے۔
یہ سوچ کر اس کا دل بھر آیا۔ وہ روتے ہوئے بولی:
"اگر محمد ﷺ ایسے ہیں، تو میں گواہی دیتی ہوں کہ وہ سچے نبی ہیں! میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتی ہوں کہ میں اسلام قبول کرتی ہوں!"
اسی دن، اس نے کلمہ پڑھا اور اسلام قبول کر لیا۔ باقی زندگی اس نے اللہ کی بندگی میں گزاری اور ہر لمحہ اپنے نبی ﷺ کے اخلاق اور محبت کو یاد کرکے اپنے دل کو سکون بخشتی رہی۔
سبق: نیکی ہمیشہ دلوں کو جیتتی ہے
یہ کہانی ہمیں ایک عظیم سبق دیتی ہے کہ نرمی، صبر اور نیکی کی طاقت ہمیشہ نفرت پر غالب آتی ہے۔ اگر ہم اچھے اخلاق کے ساتھ دوسروں کے ساتھ پیش آئیں، تو وہی لوگ جو ہمارے خلاف ہوتے ہیں، ایک دن ہمارے قریب آ سکتے ہیں۔
یہی نبی کریم ﷺ کی سنت تھی، اور یہی حقیقی کامیابی کا راستہ ہے۔
"اور نیکی اور بدی برابر نہیں ہو سکتے، برائی کو اچھائی سے دفع کرو، پھر تم دیکھو گے کہ جس سے دشمنی تھی، وہ تمہارا گہرا دوست بن جائے گا۔"
(القرآن، 41:34)
یہی وجہ ہے کہ اسلام تلوار سے نہیں بلکہ محبت اور اعلیٰ اخلاق سے پھیلا۔ جب ہم اپنے کردار کو بہتر بنائیں گے اور صبر و تحمل سے کام لیں گے، تو لوگ خود بخود ہمارے قریب آئیں گے۔
.png)
