Aakhri Moqa Ek Nafarman Betay Ki Badalti Hui Soch

0

Aakhri Moqa Ek Nafarman Betay Ki Badalti Hui Soch

عمران ایک لاپرواہ اور نافرمان بیٹا تھا۔ وہ اپنی زندگی کو آزادی سے گزارنا چاہتا تھا اور اسے والدین کی نصیحتیں بوجھ لگتی تھیں۔ اس کے والدین نے ہمیشہ اس کی بہتری کے لیے اسے سمجھایا، مگر وہ ہر بات کو نظرانداز کر دیتا تھا۔ وہ اکثر اپنے والدین کے ساتھ بدتمیزی کرتا اور ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچاتا تھا۔

عمران کی زندگی میں کوئی ذمہ داری نہیں تھی۔ اس کے والد نے بڑی محنت سے اسے ایک اچھے اسکول میں داخل کرایا، مگر وہ پڑھائی پر توجہ نہیں دیتا تھا۔ دن رات دوستوں کے ساتھ گھومنا، فضول خرچی کرنا اور والدین کی باتوں کو نظرانداز کرنا اس کا معمول بن چکا تھا۔ اس کی ماں اکثر اسے سمجھاتی، "بیٹا، ہم ہمیشہ تمہاری بھلائی کے لیے ہی کہتے ہیں، وقت گزرنے کے بعد پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں بچتا۔" مگر عمران ان باتوں کو ہنسی میں اڑا دیتا۔

عمران کے والد ایک عام مزدور تھے۔ وہ دن رات محنت کرتے تاکہ عمران کو اچھی زندگی ملے، مگر عمران کو اس بات کی کوئی پرواہ نہ تھی۔ جب بھی والد اسے کوئی نصیحت کرتے، وہ انہیں سخت الفاظ میں جواب دیتا۔ ایک دن اس کے والد نے پیار سے کہا، "بیٹا، جو والدین اپنی اولاد کے لیے قربانیاں دیتے ہیں، وہ صرف ان کی بھلائی چاہتے ہیں۔" مگر عمران نے تیزی سے جواب دیا، "بابا! مجھے اپنی زندگی جینے دیں، آپ کی نصیحتوں کی مجھے ضرورت نہیں۔"

ایک دن ایسا آیا جب عمران کے والد شدید بیمار ہو گئے۔ وہ ہسپتال میں داخل تھے، مگر عمران پھر بھی اپنی زندگی میں مگن رہا۔ جب ماں نے اسے فون کیا کہ "بیٹا، تمہارے والد کی حالت بہت خراب ہے، آ کر انہیں دیکھ لو۔" تو عمران نے بہانہ بنا دیا کہ وہ مصروف ہے۔

کچھ دن بعد جب عمران ہسپتال پہنچا، تو وہ منظر اس کے دل کو جھنجھوڑ دینے والا تھا۔ اس کے والد کی حالت بگڑ چکی تھی، اور وہ زندگی کے آخری لمحات میں تھے۔ انہوں نے کمزور آواز میں عمران کو بلایا اور کہا، "بیٹا، میں نے ہمیشہ تمہاری بہتری چاہی، تمہاری خوشی کے لیے دن رات محنت کی، مگر تم نے کبھی ہمیں اہمیت نہ دی۔ شاید میں اب زیادہ دیر تک نہ رہوں، مگر میں تمہیں آخری نصیحت دینا چاہتا ہوں کہ ماں باپ کی عزت اور قدر کرو، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔"

یہ سن کر عمران کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اس نے پہلی بار اپنے والد کا ہاتھ پکڑا اور کہا، "ابا، میں بہت شرمندہ ہوں، کاش میں آپ کی نصیحت کو پہلے سمجھ لیتا!" مگر وقت نکل چکا تھا، اور چند لمحوں بعد اس کے والد ہمیشہ کے لیے دنیا چھوڑ چکے تھے۔

عمران کی دنیا بدل گئی۔ اس نے محسوس کیا کہ جو وقت وہ اپنے والدین کے ساتھ گزار سکتا تھا، وہ اپنی لاپرواہی میں ضائع کر چکا ہے۔ اب اس کی ماں اکیلی تھی، اور وہ اس کے سوا کسی کا سہارا نہیں تھی۔ اس دن کے بعد عمران نے اپنی ماں کی ہر خوشی کو اپنی خوشی بنا لیا۔

اس نے اپنی زندگی بدلنے کا عہد کر لیا۔ وہ محنت کرنے لگا، اپنی ماں کا خیال رکھنے لگا اور اپنی ہر غلطی کا ازالہ کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ مگر اس کا دل ہمیشہ ایک بات پر افسوس کرتا کہ کاش وہ پہلے ہی سنبھل جاتا، کاش وہ اپنے والد کی نصیحت کو پہلے مان لیتا۔

سبق

یہ کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ والدین کی عزت اور محبت کی قدر کرنی چاہیے۔ ہم اکثر ان کی نصیحتوں کو نظرانداز کرتے ہیں، مگر جب حقیقت کا ادراک ہوتا ہے، تب وقت ہاتھ سے نکل چکا ہوتا ہے۔ اگر آپ کے والدین آپ کے ساتھ ہیں، تو ان کے ساتھ محبت اور عزت سے پیش آئیں، اس سے پہلے کہ آپ کو بھی عمران کی طرح پچھتانا پڑے۔

والدین کی قدر کریں، کیونکہ جب وہ چلے جاتے ہیں تو دنیا میں کوئی ان کی جگہ نہیں لے سکتا!"


Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !