Khwabon Ka Chiragh

0
Khwabon Ka Chiragh

دھوپ سے جلتی پگڈنڈیوں پر، جہاں قدم رکھتے ہی گرد اڑتی ہے، وہیں ایک چھوٹے سے گاؤں میں عاصمہ نام کی لڑکی اپنے بیمار والد کے ساتھ رہتی تھی۔ مٹی کے بنے ایک چھوٹے سے کچے گھر میں بس دو ہی جانیں آباد تھیں — ایک وہ اور دوسرا اُس کا باپ امین، جو کبھی گاؤں کا بہترین بڑھئی ہوا کرتا تھا، لیکن اب ضعیف اور بیمار ہو چکا تھا۔

ماں کی وفات کے بعد گھر گویا ویران سا ہو گیا تھا۔ عاصمہ چھوٹی عمر میں ہی بڑی ہو گئی تھی۔ ہاتھوں کی لکیروں میں بچپن کی بجائے ذمہ داریوں کی گرد چھا گئی تھی۔ وہ صبح سویرے اٹھتی، پانی بھر کر لاتی، چولہا جلاتی، کھانے کا کچھ بندوبست کرتی اور پھر آس پاس کے گھروں میں کام کرنے نکل جاتی۔

گاؤں کے لوگ اُس کی خاموش مسکراہٹ کو دیکھ کر بس افسوس کرتے، مگر کوئی کچھ نہ کہتا۔ سب جانتے تھے کہ وہ اپنی محنت سے جینا چاہتی ہے۔

ہر رات جب وہ باپ کے ساتھ بیٹھتی، اور اُسے دوائی دے کر سلانے کی کوشش کرتی، تب وہ آسمان کے ستاروں کو تکتی اور ایک ہی دعا مانگتی —
"یا اللہ! مجھے پڑھنے کا موقع دے دے، میں دنیا کو دکھاؤں گی کہ ایک غریب لڑکی بھی چراغ بن سکتی ہے۔"

گاؤں کے ایک سرکاری اسکول میں جب نئے استاد جناب اشرف کا تبادلہ ہوا، تو اسکول کا ماحول ہی بدل گیا۔ وہ دردمند دل کے انسان تھے، جنہوں نے بچوں میں تعلیم کی شمع روشن کرنے کا عزم کر رکھا تھا۔

ایک دن وہ عاصمہ کو گلی میں جھاڑو لگاتے دیکھ کر رک گئے۔ انہوں نے پوچھا،
"بیٹا، تم اسکول کیوں نہیں آتیں؟"
عاصمہ نے نظریں جھکا کر کہا،
"کتابیں خریدنے کے پیسے نہیں ہیں سر۔"

اسی دن سے استاد اشرف نے فیصلہ کیا کہ وہ عاصمہ کو خود پڑھائیں گے۔ انہوں نے اپنی تنخواہ سے کتابیں اور یونیفارم لے کر دیے، اور اسکول میں داخل کروایا۔ اب عاصمہ صبح کام کرتی، دوپہر کو اسکول جاتی، اور رات کو مٹی کے دیے کے نیچے پڑھتی۔

گاؤں والے حیران تھے — "یہ لڑکی تو پاگل ہو گئی ہے، دن بھر کام اور رات بھر پڑھائی!"
مگر عاصمہ کے دل میں اب ایک آگ جل چکی تھی، جو اسے تھکنے نہیں دیتی تھی۔

وقت گزرتا گیا، باپ کی حالت مزید بگڑتی گئی۔ عاصمہ کو اسپتال جانا پڑتا، دوائیاں خریدنی پڑتیں، اور اسکول کی فیس بھی دینی ہوتی۔ اس نے کپڑے سینے کا کام سیکھا، راتوں کو مشین چلا کر کمائی کرتی، اور دن میں پڑھائی جاری رکھتی۔

ایک دن جب اُس کا باپ زندگی کی جنگ ہار گیا، تو عاصمہ ٹوٹ کر بکھر گئی۔ لیکن وہ جانتی تھی کہ اگر اب وہ رک گئی، تو اُس کا خواب بھی دفن ہو جائے گا۔ اس نے آنسو پونچھے اور عہد کیا:
"اب یہ خواب صرف میرا نہیں، میرے ابا کی روح کا خواب بھی ہے۔"

میٹرک میں پہلی پوزیشن لینے کے بعد عاصمہ کو شہر کے ایک نرسنگ انسٹیٹیوٹ میں اسکالرشپ مل گئی۔ گاؤں سے باہر نکلنا آسان نہ تھا، مگر استاد اشرف کی رہنمائی اور گاؤں کے چند بزرگوں کی مدد سے وہ شہر روانہ ہوئی۔

شہر میں زندگی مشکل تھی — تنہائی، غربت، اور مقابلے کا ماحول۔ کئی راتیں فاقے سے گزر گئیں، مگر اس کی امید اور یقین نے اُسے ہارنے نہ دیا۔ وہ دن بھر ہسپتال میں پریکٹس کرتی، اور رات کو پڑھائی۔

چار سال کے بعد، وہ نرسنگ مکمل کر کے باعزت نوکری حاصل کر چکی تھی۔

ایک دن، جب وہ شہر میں اپنے کیریئر کے لیے تگ و دو کر رہی تھی، اُسے گاؤں سے ایک خط موصول ہوا —
"بیٹی، ہمیں تم پر فخر ہے، مگر ہمارے بچے اب بھی اسی اندھیرے میں ہیں، جس سے تم نکلی تھیں۔ اگر تم واپس آ جاؤ تو گاؤں بدل سکتا ہے۔"

یہ خط پڑھ کر عاصمہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اُس نے فیصلہ کیا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ وہ اپنے علم کا چراغ اپنے گاؤں لے جائے۔

واپسی پر اس نے نہ صرف ایک چھوٹا کلینک کھولا، بلکہ بچوں کے لیے ایک چھوٹا اسکول بھی قائم کیا۔ وہ خود پڑھاتی، علاج کرتی، اور بچوں کو سچائی، ایمانداری، اور خدمت کا سبق دیتی۔

ایک دن اسکول کی ایک ننھی بچی نے معصومیت سے پوچھا:
"دیدی، آپ اتنی بڑی ہو گئیں، اتنی امیر ہو گئیں، آپ یہاں کیوں رہتی ہیں؟"

عاصمہ نے مسکرا کر کہا:
"بیٹا، میں وہ چراغ ہوں جو اندھیروں سے نکلا، اب میرا فرض ہے کہ دوسروں کا راستہ روشن کروں۔ اصل دولت یہ ہے — علم، خدمت، اور سچائی۔"


Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !