Yaqeen Ka Charagh

0

Yaqeen Ka Charagh

زمانہ قدیم کی بات ہے۔ ایک پُرسکون گاؤں کے کنارے ایک نوجوان فاروق اپنے والد حامد کے ساتھ رہتا تھا۔ دونوں کی زندگی نہایت سادہ تھی۔ وہ ایک چھوٹی سی دکان چلاتے تھے، جہاں دن بھر محنت کرتے اور اسی دکان سے ان کا گزر بسر ہوتا۔ گھر میں صرف وہ دونوں تھے—ایک دوسرے کا سہارا، ایک دوسرے کا مان۔

شام کو جب وہ گھر لوٹتے، تو والد حامد اکثر فاروق کو نصیحت کرتے:
"بیٹا، دنیا فانی ہے، کوئی یہاں ہمیشہ رہنے نہیں آیا۔ اگر میں چلا بھی جاؤں تو میری یہ بات ہمیشہ یاد رکھنا کہ اللہ تعالیٰ کسی حال میں تمہیں تنہا نہیں چھوڑے گا۔ یہ چھوٹی سی دکان تو صرف ایک ذریعہ ہے۔ اصل طاقت اللہ پر ایمان اور اس کی رضا میں ہے۔"

"ہمیشہ ایمانداری سے کماؤ، لوگوں سے نرمی اور اچھے اخلاق سے پیش آؤ، چاہے اس میں تمہیں نقصان ہی کیوں نہ اٹھانا پڑے۔ جب بھی خود کو تنہا پاؤ، یاد رکھنا اللہ تمہارے ساتھ ہے، وہ تمہیں دیکھ رہا ہے، وہ ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرنے والا ہے۔"

فاروق نے رندھی ہوئی آواز میں کہا: "ابا، آپ کے بغیر میں کیسے رہوں گا؟ میں تو آپ کے بغیر دو قدم بھی نہیں چل سکتا۔"

حامد نے شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا:
"بیٹا، یہی تو سمجھانا چاہتا ہوں، میں رہوں یا نہ رہوں، تمہیں کبھی خود کو اکیلا محسوس نہیں کرنا۔ اگر تم نے اللہ پر بھروسہ کیا تو کبھی گمراہ نہ ہو گے۔"

فاروق بظاہر خاموش رہا، مگر دل میں سوچنے لگا: اگر میں خود محنت کروں، ایمانداری سے کماؤں، تو اللہ پر بھروسہ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ آخر سب کچھ تو میری محنت سے ہوگا۔

وقت گزرتا گیا اور ایک دن وہ گھڑی بھی آ پہنچی—فاروق کا والد، اس کا دوست، اس کا سہارا، حامد، اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔
فاروق اکیلا رہ گیا، تنہا، بے سہارا۔

دکان میں ہر چیز اسے اپنے باپ کی یاد دلاتی۔ گھر کی خاموشی اس پر بوجھ بن گئی۔ وہ خود کو کام میں جھونک دیتا، مگر والد کے بغیر وہ تنہائی اندر ہی اندر اسے کھانے لگی۔

کچھ عرصہ بعد، اسے سامان خریدنے کے لیے ایک دور دراز شہر جانا پڑا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ وہ اپنے گاؤں سے اتنی دور جا رہا تھا۔ اس نے ہمت کی، گھوڑے پر سوار ہوا اور سفر کا آغاز کیا۔

زندگی اسے چپکے چپکے دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔
راستہ طویل، اجنبی اور سنسان تھا۔ جیسے ہی شام ہونے لگی، اس کی بےچینی بڑھ گئی۔ کھانے پینے کا جو تھوڑا بہت سامان تھا، وہ بھی ختم ہو چکا تھا۔
بھوک، پیاس، تھکن اور سب سے بڑھ کر—خوف۔

سورج غروب ہونے کے ساتھ ہی فاروق کی حالت غیر ہو گئی۔ درختوں سے عجیب آوازیں آنے لگیں، گھوڑا بھی گھبرا گیا۔ اس نے سوچا شاید آگے کوئی پناہ کی جگہ مل جائے، مگر قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔

وہ بھٹکتا رہا، پیاس سے نڈھال، تھکا ہارا۔ گھوڑے نے بھی چلنے سے انکار کر دیا۔ آخر وہ زمین پر لیٹ گیا۔ مایوسی، تھکن اور خوف میں ڈوبا ہوا۔

تبھی، اس کے ذہن میں والد کی آواز گونجی:
"جب تم خود کو تنہا محسوس کرو، جان لو کہ اللہ تمہارے سب سے قریب ہوتا ہے۔"

اسی لمحے اس کے ہونٹوں پر دعا آئی:
"یا اللہ! اگر میرے باپ کی بات سچ ہے، تو اس ویرانے میں میرے لیے پانی اور رزق کا انتظام فرما۔ تُو جانتا ہے میں بھوکا پیاسا ہوں۔"

اسی دوران، اس کا گھوڑا یکدم بدک کر دوڑنے لگا۔ فاروق نے پیچھا کیا اور آخر کار اسے روک لیا، مگر وہ راستہ بھٹک چکا تھا۔

اب اُس نے ٹھان لیا کہ رُکے گا نہیں۔ کچھ دور چلنے کے بعد اسے ایک روشنی دکھائی دی۔ امید کی کرن جاگی۔ وہ روشنی کی جانب بڑھا۔

نزدیک پہنچا تو دیکھا کہ وہاں تو پورا ایک گاؤں آباد ہے۔ مگر جب پہلے گھر کے دروازے پر پہنچا، تو وہ بند تھا۔ اگلے گھر، پھر تیسرے—سبھی گھروں پر تالا لگا ہوا تھا۔

دل میں خوف جاگا، مگر روشنی کی طرف بڑھتا رہا۔ ایک گھر میں روشنی جل رہی تھی۔ دروازہ کھٹکھٹایا۔ اندر سے بھاری آواز آئی:
"کون ہے؟"

فاروق نے کہا:
"مسافر ہوں، راستہ بھٹک گیا ہوں۔ پناہ چاہتا ہوں۔"

کچھ لمحوں بعد دروازہ کھلا۔ ایک معذور شخص چٹائی پر لیٹا تھا، جس کے دونوں ہاتھ نہیں تھے۔ فاروق اس کے پاس بیٹھ گیا۔

معذور شخص نے نرمی سے کہا:
"کہاں سے آئے ہو؟"

فاروق نے سارا قصہ سنایا اور پھر بولا:
"بھائی! میں سخت پیاسا ہوں۔ کیا پانی مل سکتا ہے؟"

معذور شخص بولا:
"یہاں پانی نہیں، مگر دور صحرا میں ایک چراغ جلتا ہے، وہاں سے پانی ملے گا۔ رزق کی بات اللہ پر چھوڑ دو۔"

فاروق حیران ہوا، مگر پیاس کے ہاتھوں مجبور تھا۔ وہ اس چراغ کی جانب روانہ ہوا۔

چراغ کے قریب پہنچا تو ایک جھونپڑی میں آوازیں آئیں—کوئی شخص دیواروں سے بات کر رہا تھا۔

دروازہ کھٹکھٹایا۔
اندر سے آواز آئی:
"ہاں، میں جانتا ہوں تمہیں پانی چاہیے۔"

فاروق حیران ہوا، سوچنے لگا: اسے کیسے معلوم کہ مجھے پانی چاہیے؟

دروازہ کھلا۔ ایک ضعیف شخص، دھندلی سی روشنی میں، ہاتھ میں مٹی کا چراغ لیے کھڑا تھا۔ اس کے چہرے پر نور تھا، اور آنکھوں میں عجب سکون۔

"اندر آ جاؤ بیٹا، تمہارا انتظار تھا"، بوڑھے نے کہا۔

فاروق جھجکتے ہوئے اندر داخل ہوا۔

"پانی چاہیے نا؟ لو، پہلے یہ پیو۔"

فاروق نے ایک مٹی کے کوزے سے پانی پیا۔ پانی میں ایسی ٹھنڈک تھی جیسے کسی چشمے کا پانی ہو۔ پھر ایک پلیٹ میں گرم روٹیاں اور کھجوریں سامنے رکھ دی گئیں۔

بوڑھے نے نرمی سے کہا:
"بیٹا، بھوک اور پیاس تو گزر جائیں گے، مگر جو پیاس دل میں ہے، اسے بجھانے کے لیے یقین کا چراغ جلانا پڑتا ہے۔"

فاروق نے پوچھا: "آپ کو کیسے معلوم کہ میں آ رہا ہوں؟"

بوڑھا مسکرا کر بولا:
"جس ذات پر تم نے آج دل سے بھروسا کیا، وہی مجھے تم تک لائی۔ میں اسی کے حکم سے یہاں چراغ جلاتا ہوں تاکہ وہ مسافر جو دنیا کی دھوپ میں جل رہے ہوں، انہیں امید کی ایک کرن دکھائی دے۔ تم نے پہلی بار سچے دل سے اللہ کو پکارا، اس نے تمہیں یہاں پہنچا دیا۔"

فاروق کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔
"میرے ابا کہتے تھے کہ اللہ پر یقین سب سے بڑی دولت ہے۔ میں نے سمجھا نہیں، خود کو اکیلا سمجھا، مگر آج جان لیا کہ وہ واقعی ہر حال میں میرے ساتھ ہے۔"

بوڑھے نے کہا:
"یقین، وہ چراغ ہے جو اندھیرے میں بھی روشنی دیتا ہے۔ تمہیں تمہارا چراغ مل گیا۔ اب واپس جاؤ اور لوگوں کو یہ سبق سکھاؤ۔ محنت کرو، مگر اللہ پر بھروسہ رکھو، وہی رازق ہے، وہی محافظ۔"

فاروق واپس گاؤں لوٹا۔ اس دن کے بعد، اس کی دکان صرف تجارت کا ذریعہ نہیں رہی، بلکہ ہر آنے والے کو وہ یقین، صبر، اور سچائی کی روشنی بانٹنے لگا۔

لوگ اسے دعائیں دینے لگے، اور اس کی زندگی سکون اور برکت سے بھر گئی۔
وہی دکان، وہی گاؤں، مگر اب دل میں یقین کا چراغ جلتا تھا۔

سبق:
زندگی میں مشکلیں آئیں گی، تنہائیاں بھی آئیں گی، مگر جو شخص اللہ پر سچا یقین رکھتا ہے، اس کا کوئی چراغ کبھی نہیں بجھتا۔


Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !