Life changing story in urdu

0
Life changing story in urdu

دنیا میں کامیاب ہونے والے لوگوں کی کہانی ہمیشہ ایک بات سکھاتی ہے: کامیابی اُن ہی کو ملتی ہے جو اپنی کمزوریوں کو پہچان کر اُن پر کام کرتے ہیں۔ یہ کہانی بھی کچھ ایسی ہی ہے، ایک عام سے لڑکے کی، جو اپنی کمزوری کو اپنی سب سے بڑی طاقت بنا گیا۔

ایک چھوٹے سے قصبے میں ایک لڑکا رہتا تھا، جس کا نام شوہان تھا۔ وہ ذہین تو تھا، مگر اس کی تعلیم ہمیشہ اردو میڈیم اسکول سے ہوئی تھی۔ کالج میں داخلہ لینے کے بعد جب اُس نے پہلی بار انگلش میڈیم کلاس میں قدم رکھا، تو اس کے قدم جیسے زمین میں دھنس گئے۔

پہلا دن تھا، استاد نے طلباء سے کہا:

“سب لوگ اپنا تعارف انگریزی میں دیں۔”

جب شوہان کی باری آئی، تو وہ ہچکچانے لگا۔ دل تیزی سے دھڑک رہا تھا، ماتھے پر پسینہ آ گیا۔ اس نے ہلکی سی آواز میں کہا:

“Sir… my… my name is Shohan…”

بس اتنا ہی کہہ سکا۔ کلاس میں قہقہے گونج اٹھے۔ کچھ طلباء نے ہنس کر کہا:

“یہ تو انگریزی بول ہی نہیں سکتا!”

شوہان کے دل پر جیسے کسی نے چھری چلا دی۔ وہ شرمندہ سا بیٹھ گیا۔ مگر اُسی لمحے استاد نے مسکرا کر کہا:

“بیٹا، شرمانے کی ضرورت نہیں۔ انگریزی ایک زبان ہے، قابلیت نہیں۔ تم اسے سیکھ سکتے ہو، اگر چاہو تو۔”

یہ الفاظ شوہان کے دل میں اُتر گئے۔ جیسے کسی نے ایک بجھی ہوئی شمع کو دوبارہ جلایا ہو۔

اس دن کے بعد شوہان دیر تک اپنے بستر پر جاگتا رہا۔ بار بار وہی لمحہ یاد آتا — سب ہنس رہے تھے، وہ خاموش تھا۔ لیکن دل کے کسی کونے سے ایک آواز آئی:

“اگر دنیا کے باقی لوگ سیکھ سکتے ہیں تو تُو کیوں نہیں؟”

اس نے فیصلہ کیا — اب وہ انگریزی سیکھے گا، کسی بھی قیمت پر۔
یہ اُس کی زندگی کا پہلا کمٹمنٹ (عہد) تھا۔

اس نے کتابیں خریدیں، یوٹیوب پر لیکچرز دیکھے، آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر خود سے انگریزی میں بات کرنے لگا۔ شروع میں ہنسی آتی تھی، الفاظ ٹوٹتے تھے، مگر اُس نے ہار نہیں مانی۔

ہر رات وہ ایک جملہ خود سے کہتا:

“میں کر سکتا ہوں۔”
یہی یقین اُس کی طاقت بن گیا۔

انگریزی سیکھنے کے سفر میں اُس نے ایک بڑی بات سمجھی — زبان سیکھنا محض الفاظ یاد کرنا نہیں، بلکہ سوچنے کا طریقہ بدلنا ہے۔

جب وہ کتابیں پڑھتا، فلمیں دیکھتا، یا کسی غیر ملکی یوٹیوبر کو سنتا، تو وہ صرف الفاظ نہیں سنتا تھا بلکہ سوچنے کی نئی راہیں تلاش کرتا تھا۔

آہستہ آہستہ اسے احساس ہوا کہ انگریزی محض ایک زبان نہیں، بلکہ دنیا سے رابطے کا دروازہ ہے۔
اسی لیے اُس نے اپنی محنت اور مشق کو دوگنا کر دیا۔

کچھ مہینوں بعد، جب اُس کے دوست سیر سپاٹے کر رہے ہوتے، شوہان اپنے کمرے میں بیٹھا ہوتا — کبھی بولنے کی پریکٹس، کبھی ریکارڈنگ سنتا، کبھی ڈائری میں انگریزی جملے لکھتا۔

لوگ ہنستے، کہتے:

“کیا کر رہا ہے؟ تُو تو پاگل ہو گیا ہے!”

مگر وہ جانتا تھا، آج کے یہ طنز کل کے تعریفوں میں بدل جائیں گے۔

زندگی میں ایک وقت آتا ہے جب لوگ تم پر ہنستے ہیں، پھر وہی لوگ تمہاری باتوں پر تالیاں بجاتے ہیں۔
شوہان اسی لمحے کا انتظار کر رہا تھ

ایک دن کالج میں "اسپیکنگ کمپٹیشن" کا اعلان ہوا۔
شوہان نے دل میں سوچا — “یہ میرا امتحان ہے۔”

اس نے اپنا نام درج کرا دیا۔ تیاری شروع کی۔ روز آئینے کے سامنے کھڑا ہوتا، ہر لفظ کی ادائیگی درست کرنے کی کوشش کرتا۔

جب مقابلے کا دن آیا تو پورا ہال بھرا ہوا تھا۔ شوہان کا نام پکارا گیا۔ دل تیزی سے دھڑک رہا تھا، مگر اب اس کے چہرے پر یقین تھا۔

وہ اسٹیج پر گیا، مائیک پکڑا، اور بولا:

“Good morning everyone. My name is Shohan, and today I want to tell you something — Never be ashamed of your weakness.”

پورا ہال خاموش تھا۔ اس کے الفاظ میں یقین کی طاقت تھی۔ وہ لڑکا جس پر کبھی ہنسی اُڑائی گئی تھی، آج سب کی توجہ کا مرکز بن چکا تھا۔

شوہان نے اُس دن سب کے سامنے کہا:

“میں نے سیکھا کہ کمزوری کو چھپانے سے بہتر ہے اسے دور کرنے کی کوشش کرو۔
اگر ہم خود پر یقین رکھیں، تو دنیا کا کوئی بھی ہنر ناممکن نہیں۔”

اس کے یہ الفاظ صرف طلباء نہیں، بلکہ استاد کے دل کو بھی چھو گئے۔
ٹیچر مسکرا کر بولے:

“بیٹا، آج تم نے ثابت کر دیا کہ سچّا طالب علم وہ نہیں جو سب کچھ جانتا ہو، بلکہ وہ جو سیکھنے کی لگن رکھتا ہو۔”

اب شوہان روزانہ انگریزی بولتا، لکھتا اور سنتا۔ لیکن اب یہ سب صرف “انگلش سیکھنے” کے لیے نہیں تھا —
اب وہ جان چکا تھا کہ زندگی میں اصل کامیابی محنت، یقین اور مسلسل سیکھنے میں ہے۔

وہ ہر اس انسان کو یہی پیغام دیتا:

“اگر تمہیں لگتا ہے تم کچھ نہیں کر سکتے،
تو یاد رکھو — تمہارا یقین ہی تمہیں بدل سکتا ہے۔”

رات کے اندھیرے میں بھی اگر کوئی چراغ جلتا رہے، تو وہ آخرکار روشنی پھیلا ہی دیتا ہے۔ شوہان کی محنت بھی کچھ ایسی ہی تھی۔
دن گزرتے گئے، مہینے بیتتے گئے، مگر اُس نے ہار نہیں مانی۔

کالج کے دن ختم ہو رہے تھے۔ ہر طرف طلباء کے چہروں پر مستقبل کے خواب تھے۔
کسی کو بیرونِ ملک جانا تھا، کسی نے سرکاری نوکری کا خواب دیکھا ہوا تھا، اور کوئی اپنی کمپنی شروع کرنے کا سوچ رہا تھا۔
شوہان کے دل میں بھی ایک خواب تھا — کسی بڑی ملٹی نیشنل کمپنی میں نوکری حاصل کرنے کا۔

مگر مسئلہ یہ تھا کہ وہاں انٹرویو انگلش میں ہوتا تھا۔
وہ جانتا تھا کہ یہی وہ لمحہ ہے، جس کے لیے اُس نے راتیں جاگ کر گزاری تھیں، آئینے کے سامنے باتیں کی تھیں، اور اپنی کمزوری کو طاقت بنایا تھا۔

ایک دن اُس کے کالج میں اعلان ہوا کہ مشہور کمپنی "FutureTech Solutions" کی ٹیم کیمپس میں آ رہی ہے۔
سارا کالج پرجوش تھا۔ سب تیاری میں لگ گئے۔
شوہان کے دل میں ایک عجیب سا سکون تھا — وہ گھبرایا نہیں، بلکہ اس کے اندر اعتماد کی ایک چمک تھی۔

انٹرویو کے دن صبح وہ جلدی جاگ گیا۔ آئینے کے سامنے کھڑا ہوا، خود سے کہا:

“آج وہ دن ہے، جس کا تُو نے خواب دیکھا تھا۔
آج تُو وہی ثابت کرے گا، جو سب نے ناممکن سمجھا تھا۔”

اس نے اپنی بہترین قمیض پہنی، فائل ہاتھ میں لی، اور چہرے پر مسکراہٹ سجائی۔
کالج پہنچتے ہی اُس کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی، مگر اب وہ خوفزدہ نہیں تھا — کیونکہ خوف صرف اُس انسان کو ہوتا ہے جس نے تیاری نہیں کی ہوتی۔

انٹرویو روم کے باہر اُس کے دوست موجود تھے، سب ایک دوسرے کو حوصلہ دے رہے تھے۔
جب اس کا نام پکارا گیا، تو وہ بسم اللہ پڑھ کر اندر گیا۔

کمرے میں تین لوگ بیٹھے تھے — دو غیر ملکی، ایک مقامی۔
ایک نے مسکرا کر کہا:

“Good morning, Shohan. Please, have a seat.”

شوہان بیٹھ گیا، اور دل میں کہا:

“یہ وہ لمحہ ہے جس کے لیے تُو نے سب کچھ قربان کیا تھا۔ اب بس یقین سے بول۔”

پہلا سوال آیا:

“Tell us about yourself.”

شوہان نے گہرا سانس لیا اور پورے اعتماد کے ساتھ بولا:

“Good morning, Sir. My name is Shohan. I belong to a small town, but I carry big dreams. I believe that language is just a medium — confidence and consistency are the real skills.”

انٹرویو لینے والے ایک لمحے کے لیے رک گئے۔
پھر اُن کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
انہوں نے اگلا سوال کیا، پھر تیسرا، پھر چوتھا… اور شوہان نے ہر سوال کا جواب نرمی، اعتماد اور مسکراہٹ کے ساتھ دیا۔

آخر میں ایک انٹرویو لینے والے نے کہا:

“You know, Shohan, your English is not perfect — but your confidence is. And that’s what makes you perfect for this job.”

یہ سن کر شوہان کے آنکھوں میں نمی آ گئی، مگر دل مطمئن تھا۔
وہ باہر نکلا، آسمان کی طرف دیکھا، اور دل میں شکر ادا کیا:

“اللہ نے آج میری محنت قبول کر لی۔”

دو دن بعد رزلٹ آیا۔
کالج کے ہال میں تمام طلباء جمع تھے۔ ٹیچر نے لسٹ ہاتھ میں لی اور بولی:

“Next candidate — selected for FutureTech Solutions… Shohan Ahmed!”

پورا ہال تالیاں بجانے لگا۔
وہ لڑکا جس پر کبھی سب ہنستے تھے، آج سب اس کے لیے کھڑے ہو کر تالی بجا رہے تھے۔

شوہان کے آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔
لیکن یہ کمزوری کے نہیں، بلکہ کامیابی کے آنسو تھے۔
وہ جانتا تھا — یہ سب اُس کے یقین، اُس کی محنت، اور اُس کے استاد کے اُس جملے کی بدولت تھا:

“انگلش ایک زبان ہے، قابلیت نہیں۔ تم اسے سیکھ سکتے ہو، اگر چاہو تو۔”

اس دن کے بعد شوہان نے خود سے ایک وعدہ کیا —
کہ وہ کبھی کسی کی کمزوری پر ہنسے گا نہیں، بلکہ اُنہیں اُٹھانے میں مدد کرے گا۔

اس نے ایک چھوٹا سا یوٹیوب چینل بنایا، جس پر وہ “English for Confidence” کے نام سے ویڈیوز بناتا۔
وہ اپنی کہانی سناتا، اور نوجوانوں کو سمجھاتا کہ انسان کی اصل طاقت اُس کا یقین ہے، نہ کہ اُس کی زبان یا تعلیم۔

کچھ مہینوں میں اُس کے ہزاروں فالوورز بن گئے۔
لوگ تبصرہ کرتے:

“شوہان بھائی، آپ نے ہمیں جینے کی نئی امید دی ہے۔”
“آپ کی کہانی نے میرا ڈر ختم کر دیا۔”

یہی شوہان کی اصل کامیابی تھی — وہ اب صرف نوکری حاصل کرنے والا نہیں تھا، بلکہ حوصلہ دینے والا شخص بن چکا تھا۔

زندگی میں ایک وقت آتا ہے جب سب کچھ ناممکن لگتا ہے۔
ہر طرف اندھیرا ہوتا ہے، لوگ مذاق اڑاتے ہیں، کوئی ساتھ نہیں دیتا۔
ایسے وقت میں اگر کوئی چیز تمہیں بچاتی ہے تو وہ صرف ایک چیز ہے — یقین۔

یقین خود پر، یقین اپنے رب پر، یقین اپنی محنت پر۔
یہی یقین تمہیں وہاں پہنچاتا ہے جہاں خواب ختم ہو جاتے ہیں۔

اگر شوہان جیسے ایک عام لڑکے نے خود کو بدل لیا، تو ہم سب کیوں نہیں بدل سکتے؟
بس فرق اتنا ہے کہ وہ ہارا نہیں، اور ہم اکثر جلدی ہتھیار ڈال دیتے ہیں۔

یاد رکھو:

“دنیا تمہیں تب تک نہیں مانتی،
جب تک تم خود کو نہیں منواتے۔”

اگر تمہیں لگتا ہے کہ تم پیچھے ہو، تم سست ہو، تم کمزور ہو — تو خود سے کہو:

“اب میری باری ہے۔”

اپنی کمزوری کو بہانہ نہیں، ہدف بناؤ۔
دنیا اُنہی کی ہے جو خواب دیکھ کر نہیں، بلکہ خوابوں کو حقیقت بناتے ہیں۔

ہر دن ایک نیا موقع ہے۔
اور اگر تم آج سے شروعات کرو، تو کل تمہاری کہانی بھی کسی کے لیے حوصلے کی مثال بن سکتی ہے۔
یہ کہانی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ:

کمزوری کبھی شرمندگی نہیں، بلکہ سیکھنے کی شروعات ہے۔

زبان، علم یا حالات تمہیں نہیں روک سکتے، جب تمہارا یقین زندہ ہو۔

اور سب سے بڑھ کر، کامیابی اُنہی کو ملتی ہے جو اپنی ہار سے سبق لیتے ہیں۔

Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !