دنیا میں کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں جن کی زندگی مشکلات سے بھرپور ہونے کے باوجود وہ دوسروں کے لیے مشعلِ راہ بن جاتی ہیں۔ ہیلن کیلر انہی میں سے ایک ہیں، جنہوں نے نابینا اور بہرے ہونے کے باوجود نہ صرف اپنی زندگی سنواری بلکہ لاکھوں لوگوں کے لیے ایک حوصلے اور ہمت کی علامت بن گئیں۔ ان کی زندگی ہمیں سکھاتی ہے کہ اگر ہمارے اندر سیکھنے کی لگن اور کچھ کر گزرنے کی خواہش ہو، تو کوئی بھی رکاوٹ ہمیں آگے بڑھنے سے نہیں روک سکتی۔
ہیلن کیلر 27 جون 1880 کو الاباما، امریکہ میں پیدا ہوئیں۔ وہ ایک عام صحت مند بچی تھیں، لیکن انیس ماہ کی عمر میں شدید بخار کی وجہ سے ان کی بینائی اور سماعت ختم ہو گئی۔ اس حادثے نے ان کی زندگی کو بالکل بدل کر رکھ دیا۔وہ نہ سن سکتی تھیں، نہ دیکھ سکتی تھیں، اور نہ ہی بول سکتی تھیں۔وہ اپنی بات دوسروں تک پہنچانے میں ناکام رہتیں، جس کی وجہ سے اکثر غصہ اور مایوسی کا شکار ہو جاتیں۔والدین کے لیے یہ صورتحال بہت پریشان کن تھی، کیونکہ وہ نہیں جانتے تھے کہ اپنی بیٹی کو کیسے سکھائیں۔
ہیلن کی دنیا خاموش اور تاریک ہو چکی تھی، لیکن ان کے والدین نے ہمت نہیں ہاری اور ایک خاص استاد کی تلاش شروع کی جو ان کی بیٹی کو تعلیم دے سکے۔ہیلن کی زندگی کا سب سے بڑا موڑ اس وقت آیا جب ان کے والدین نے ان کے لیے اینی سلیوان کو بطور استاد مقرر کیا۔ اینی سلیوان خود بھی آنکھوں کی ایک بیماری میں مبتلا رہ چکی تھیں اور اس درد کو سمجھتی تھیں جو ہیلن محسوس کر رہی تھیں۔
اینی نے ہیلن کی تربیت محبت، صبر اور نئی تکنیک کے ذریعے شروع کی۔وہ ہیلن کو چیزوں کو چھونے دیتیں اور ان کے ہاتھ پر الفاظ کے اشارے بناتیں تاکہ وہسمجھ سکیں کہ دنیا میں چیزوں کے نام ہوتے ہیں۔
ہیلن کا پہلا سیکھا گیا لفظ "پانی" تھا، جب اینی نے ایک ہاتھ پر پانی ڈالا اوردوسرے ہاتھ پر "W-A-T-E-R" لکھا۔ یہ لمحہ ہیلن کی زندگی کی سب سے بڑی جیت تھی۔
یہ پہلا قدم تھا جس نے ہیلن کے لیے سیکھنے کے دروازے کھول دیے اور وہ بہت جلد زبان سیکھنے لگیں۔
ہیلن کیلر نے اپنی استاد اینی سلیوان کی مدد سے مختلف مضامین سیکھنا شروع کیے اور ان کے اندر ایک نئی دنیا بیدار ہو گئی۔ انہوں نے پڑھنے اور لکھنے کی تکنیک سیکھی، اور پھر بولنے کی تربیت بھی حاصل کی۔
ریڈکلف کالج (ہارورڈ یونیورسٹی کا ایک حصہ) میں داخلہ لیا۔ گریجویشن کرنے والی پہلی نابینا اور بہری خاتون بن گئیں۔
کئی زبانیں سیکھیں، جن میں فرانسیسی، جرمن، اور لاطینی بھی شامل تھیں۔
ہیلن نے اپنی زندگی اور تجربات پر بہت سی کتابیں لکھیں، جن میں سب سے مشہور کتاب:
The Story of My Life" (میری زندگی کی کہانی) – یہ کتاب آج بھی دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں کو متاثر کر رہی ہے۔
تعلیم مکمل کرنے کے بعد، ہیلن کیلر نے اپنی زندگی معذور افراد کے حقوق کے لیے وقف کر دی۔
انہوں نے مختلف ملکوں کا سفر کیا اور نابینا و بہرے افراد کی تعلیم اور روزگار کے لیے کام کیا۔
وہ سوشل ایکٹوسٹ بن گئیں اور کئی فلاحی تنظیموں کے ساتھ مل کر معذور افراد کے لیے بہتر قوانین متعارف کروانے میں مدد دی۔
دوسری جنگِ عظیم کے دوران انہوں نے زخمی فوجیوں سے ملاقاتیں کیں اور انہیں حوصلہ دیا۔
پہلی نابینا و بہری خاتون جنہوں نے یونیورسٹی کی ڈگری حاصل کی۔
12 سے زیادہ کتابیں لکھیں۔
39 سے زیادہ ممالک کا دورہ کیا اور لاکھوں لوگوں کو متاثر کیا۔
1964 میں "Presidential Medal of Freedom" (امریکہ کا سب سے بڑا سول ایوارڈ) حاصل کیا۔
ہیلن کیلر کی زندگی ہمیں سکھاتی ہے کہ:
مشکلات زندگی کا حصہ ہیں، لیکن ہمیں کبھی ہار نہیں ماننی چاہیے۔
اگر ہمارے اندر سیکھنے کا جذبہ ہو، تو کچھ بھی ناممکن نہیں۔
معذوری یا مشکلات انسان کی کامیابی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتیں، جب تک کہ ہم خود ہمت نہ ہاریں۔
اپنے خوابوں کی تعبیر حاصل کرنے کے لیے محنت، صبر، اور لگن ضروری ہے۔
نتیجہ
ہیلن کیلر کی کہانی صرف ایک متاثر کن زندگی کی کہانی نہیں، بلکہ یہ ایک انقلاب کی علامت ہے۔ انہوں نے دنیا کو یہ سکھایا کہ اندھیرا، خاموشی، اور مشکلات کبھی بھی ایک باہمت انسان کے خوابوں کو ختم نہیں کر سکتیں۔
The only thing worse than being blind is having sight but no vision. Helen Keller
"اندھا ہونا اتنا برا نہیں، جتنا وژن (مقصد) نہ رکھنا برا ہے۔ ہیلن کیلر
یہ کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ اگر ہم اپنے خوابوں پر یقین رکھیں اور ہمت سے کام کریں، تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں کامیاب ہونے سے نہیں روک سکتی۔
.png)
.png)