جان برامبلیٹ کی کہانی صرف ایک نابینا مصور کی نہیں، بلکہ ایک ایسے شخص کی ہے جس نے اپنی کمزوری کو طاقت میں بدل دیا۔ وہ شخص جو روشنی کھو بیٹھا لیکن پھر بھی دنیا کو رنگوں میں دیکھنے لگا۔ یہ کہانی عزم، ہمت اور تخلیقی صلاحیتوں کی ایک روشن مثال ہے۔
جان برامبلیٹ 1971ء میں ٹیکساس کے شہر ایلباسو میں پیدا ہوئے۔ ان کی ابتدائی زندگی عام بچوں کی طرح تھی، لیکن انہیں بچپن سے ہی صحت کے مسائل کا سامنا رہا، خاص طور پر مرگی (Epilepsy) کے دوروں کا۔ اس بیماری کے باوجود، وہ ایک ذہین اور تخلیقی بچہ تھا، جو ہمیشہ کچھ نیا سیکھنے اور بنانے کی جستجو میں لگا رہتا تھا۔
انہوں نے یونیورسٹی آف نارتھ ٹیکساس (University of North Texas) سے انگریزی ادب میں گریجویشن کیا اور ان کا خواب تھا کہ وہ ایک پروفیسر بنیں۔ وہ لکھنے اور پڑھنے کے بے حد شوقین تھے، اور اپنی زندگی کو الفاظ کے ذریعے بیان کرنا چاہتے تھے۔ لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔
2001ء میں جب جان 30 سال کے تھے، تو ان کی بینائی مکمل طور پر ختم ہو گئی۔ یہ بیماری مرگی اور لائم بیماری (Lyme Disease) کی پیچیدگیوں کے باعث ہوئی۔ بینائی کھونے کے بعد وہ مکمل طور پر ٹوٹ گئے، ان کے خواب بکھر گئے اور وہ شدید مایوسی کا شکار ہو گئے۔
یہ ایک ایسا وقت تھا جب وہ ہر چیز سے دل برداشتہ ہو چکے تھے۔ انہوں نے خود کو کمرے میں بند کر لیا، لوگوں سے بات کرنا چھوڑ دی، اور اپنی زندگی میں کسی مقصد کے بغیر جینے لگے۔ لیکن پھر، ایک دن، انہوں نے ایک ایسا قدم اٹھایا جس نے ان کی زندگی کو مکمل طور پر بدل کر رکھ دیا۔
جان برامبلیٹ نے مصوری کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ سننے میں عجیب لگ سکتا ہے کہ ایک نابینا شخص پینٹنگ کیسے بنا سکتا ہے، لیکن جان نے ایک منفرد تکنیک ایجاد کی۔ انہوں نے محسوس کیا کہ مختلف رنگوں میں مختلف ساخت (texture) ہوتی ہے۔ انہوں نے مختلف اقسام کے رنگوں کو چھو کر پہچاننے کا فن سیکھا۔
پہلے پہل، وہ کینوس پر raised lines بنا کر تصویریں بناتے اور پھر ان میں رنگ بھرتے۔ حیرت انگیز طور پر، ان کی پینٹنگز دیکھنے والے لوگوں کو عام مصوروں کی تخلیق کردہ تصاویر سے زیادہ متاثر کرنے لگیں۔ وہ جذبات کو رنگوں میں تبدیل کرنے لگے، اور یہ تکنیک ان کی پہچان بن گئی۔
وقت کے ساتھ ساتھ جان برامبلیٹ کی مصوری مشہور ہونے لگی۔ ان کی بنائی گئی پینٹنگز 120 سے زائد ممالک میں فروخت ہو چکی ہیں اور کئی عالمی سطح کے ادارے ان کے فن کو تسلیم کر چکے ہیں۔ وہ تین بار امریکی صدارتی سروس ایوارڈ جیت چکے ہیں اور ان کا کام دنیا کے بڑے عجائب گھروں اور گیلریوں میں نمائش کے لیے پیش کیا گیا ہے۔
انہوں نے وہ کام بھی کیے جو بینا مصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ وہ پہلے نابینا مصور ہیں جنہوں نے آؤٹ ڈور دیواروں پر بڑی پینٹنگز بنائی ہیں۔ ان کا کام امپریشنزم اور پاپ آرٹ کا حسین امتزاج ہے، جو دیکھنے والوں کو مسحور کر دیتا ہے۔
جان برامبلیٹ نہ صرف ایک بہترین مصور ہیں، بلکہ ایک شاندار موٹیویشنل اسپیکر بھی ہیں۔ انہوں نے مختلف تعلیمی اداروں اور آرٹ گیلریوں میں لیکچرز دیے ہیں، جہاں وہ لوگوں کو یہ سکھاتے ہیں کہ کسی بھی کمزوری کو طاقت میں کیسے بدلا جا سکتا ہے۔
وہ مختلف نابینا افراد کے لیے ورکشاپس بھی منعقد کرتے ہیں، تاکہ انہیں مصوری سیکھنے میں مدد مل سکے۔ انہوں نے میوزیمز اور آرٹ سینٹرز کے ساتھ مل کر ایسے پروگرامز ترتیب دیے ہیں، جو معذور افراد کے لیے قابل رسائی ہوں۔
جان برامبلیٹ اپنی بیوی اور بیٹے کے ساتھ ڈینٹن، ٹیکساس میں رہتے ہیں۔ ان کی بیوی اور بیٹا ان کی سب سے بڑی طاقت ہیں، جو ہر لمحے ان کا ساتھ دیتے ہیں۔ وہ اپنے خاندان کے ساتھ وقت گزارنے کو سب سے زیادہ ترجیح دیتے ہیں اور اپنے بیٹے کو دنیا کے رنگوں کے بارے میں بتانے کا ایک منفرد انداز رکھتے ہیں۔
جان برامبلیٹ کی کہانی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ زندگی میں مشکلات آ سکتی ہیں، لیکن ان مشکلات کو شکست دینا ہمارے ہاتھ میں ہے۔ بینائی چلی جانے کے بعد، انہوں نے روشنی دیکھنے کی بجائے رنگوں کو محسوس کرنا سیکھا۔ ان کی کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ اگر عزم اور حوصلہ ہو، تو کوئی بھی رکاوٹ ہمیں ہمارے خوابوں کو پورا کرنے سے نہیں روک سکتی۔
ان کی زندگی اس بات کا ثبوت ہے کہ بینائی آنکھوں میں نہیں، بلکہ دل میں ہوتی ہے۔ وہ شخص جس نے دنیا کو دیکھنا چھوڑ دیا، وہ آج دنیا کو ایک ایسا رنگین اور حسین انداز دکھا رہا ہے، جو شاید کوئی اور نہ دکھا سکے۔
.png)
.png)