ایک 14 سالہ بچہ بہت بڑے خواب لے کر اپنے گاؤں سے شہر آتا ہے، لیکن اس کے پاس نہ دولت ہوتی ہے اور نہ سہولیات۔ بس ایک خواب ہوتا ہے کہ ایک دن وہ بڑا آدمی بنے گا اور اپنا کاروبار کرے گا۔ وہ محنت کرتا ہے، مختلف کام کرتا ہے، اور وقت گزرتا جاتا ہے۔ اس کی عمر 14 سے 30 سال ہو جاتی ہے۔ جب وہ پیچھے مڑ کر دیکھتا ہے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ اس نے کتنی محنت کی ہے۔ آج وہ چار بڑی فیکٹریوں کا مالک ہے۔ اب اسے لگتا ہے کہ شادی کرنے کا صحیح وقت آ گیا ہے اور وہ شادی کر لیتا ہے۔ شادی کے ایک سال بعد اللہ اسے اولاد کی نعمت سے نوازتا ہے۔
زندگی کا نیا موڑ
سب کچھ اچھا چل رہا ہوتا ہے اور وہ خدا کا شکر ادا کرتا ہے۔ لیکن جب وہ 40 سال کا ہوتا ہے، تو اچانک اسے کینسر ہو جاتا ہے۔ یہ خبر سن کر وہ صدمے میں آ جاتا ہے اور سوچتا ہے کہ جو کچھ بھی اس نے حاصل کیا، وہ کس کام کا؟ اس کا بیٹا ابھی 9 سال کا ہے، اور اسے کاروبار چلانے کی سمجھ نہیں۔ تب وہ سوچتا ہے کہ اسے اپنے بیٹے کو سکھانے کے لیے کوئی طریقہ نکالنا ہوگا۔
زندگی کا پہلا سبق
ایک دن وہ اپنے 9 سالہ بیٹے کو بلاتا ہے اور کہتا ہے، ’’بیٹا، آج میں تمہیں ایک چیلنج دوں گا، کیا تم اسے پورا کرو گے؟‘‘ بیٹا فوراً کہتا ہے، ’’جی ہاں، ابو!‘‘ تب وہ ایک بڑا سا ڈبہ دیتا ہے اور کہتا ہے، ’’اس ڈبے کو اٹھاؤ اور تین گھنٹے کے اندر اس کی قیمت بڑھا کر واپس لاؤ۔‘‘ بچہ حیران ہوتا ہے کہ آخر یہ کیسے ممکن ہے؟ لیکن جب وہ ڈبہ کھولتا ہے تو دیکھتا ہے کہ اس میں گیہوں (گندم) ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ اس کی قیمت کیسے بڑھائی جائے۔ پھر اسے خیال آتا ہے کہ گیہوں سے آٹا بن سکتا ہے۔ وہ قریبی چکی کے مالک کے پاس جاتا ہے اور کہتا ہے، ’’انکل، کیا آپ میرے لیے یہ گیہوں پیس کر آٹا بنا سکتے ہیں؟‘‘ چکی کا مالک اس معصوم بچے کی بات سن کر بغیر کسی قیمت کے گیہوں کو پیس کر آٹا بنا دیتا ہے۔ بچہ خوشی خوشی گھر واپس آتا ہے اور اپنے والد کو آٹا دکھا کر کہتا ہے، ’’دیکھو ابو، میں نے اس کی قیمت بڑھا دی ہے!‘‘ اس کے والد مسکراتے ہیں لیکن سمجھتے ہیں کہ سیکھنے کا سفر ابھی ختم نہیں ہوا۔
دوسرا سبق
اگلی صبح وہ پھر اپنے بیٹے کو بلا کر ایک اور چیلنج دیتا ہے۔ اب وہی آٹا ڈبے میں موجود ہوتا ہے اور بچہ سوچنے لگتا ہے کہ اب اس کی قیمت کیسے بڑھائی جائے؟ اچانک اسے خیال آتا ہے کہ آٹے سے روٹی یا بریڈ بن سکتی ہے۔ وہ قریبی بیکری کے مالک کے پاس جاتا ہے اور درخواست کرتا ہے، ’’انکل، کیا آپ اس آٹے سے میرے لیے بریڈ بنا سکتے ہیں؟‘‘ بیکری کا مالک بچے کی معصومیت دیکھ کر آٹے سے بریڈ بنا کر دے دیتا ہے۔ اب اس کے پاس بریڈ کے آٹھ پیکٹ ہوتے ہیں۔ وہ خوشی خوشی گھر واپس آتا ہے، اور والد دیکھ کر مسکرا دیتے ہیں، لیکن وہ اب بھی کچھ نیا سکھانا چاہتے ہیں۔
تیسرا سبق: قیمت میں کئی گنا اضافہ
اب کے بار اس کے والد کہتے ہیں، ’’بیٹا، آج میں تمہیں ایک اور مشکل چیلنج دیتا ہوں۔ تمہیں اس بریڈ کی قیمت کم از کم پانچ گنا بڑھا کر واپس لانی ہوگی۔‘‘ اب بچہ سوچتا ہے کہ وہ کیسے کرے؟ پھر اسے خیال آتا ہے کہ بریڈ سے سینڈوچ بنایا جا سکتا ہے۔ وہ قریبی ریسٹورنٹ کے مالک کے پاس جاتا ہے اور کہتا ہے، ’’انکل، کیا آپ میرے لیے ان بریڈز سے سینڈوچ بنا سکتے ہیں؟‘‘ ریسٹورنٹ کا مالک سوچتا ہے کہ یہ بچہ کچھ سیکھنا چاہ رہا ہے، اس لیے وہ چار سینڈوچ بنا کر اسے دے دیتا ہے۔ بچہ گھر آ کر کہتا ہے، ’’ابو، میں نے بریڈ کے پیکٹوں کو سینڈوچ میں بدل دیا ہے، اور اب ان کی قیمت پانچ گنا بڑھ گئی ہے!‘‘ اس کے والد خوش ہو کر مسکراتے ہیں اور کہتے ہیں، ’’بیٹا، تم نے کاروبار کرنا سیکھ لیا ہے۔ اب تم میرے ساتھ دفتر چلا کرو گے‘‘
اس کہانی سے کیا سیکھا؟
یہ کہانی ہمیں زندگی اور کاروبار کے چند اہم اسباق سکھاتی ہے:
بزنس ملٹیپلیکیشن پر منحصر ہے۔ جو بھی سرمایہ آپ کے پاس ہے، اسے بڑھانے کا ہنر سیکھنا چاہیے۔ یہی کاروبار کی اصل کامیابی ہے۔
اپنی ویلیو میں اضافہ کرو۔ جب تک تم سادہ گیہوں بنے رہو گے، تمہاری قیمت کم رہے گی۔ جیسے گیہوں سے آٹا، آٹے سے بریڈ اور بریڈ سے سینڈوچ بنتا ہے، ویسے ہی ہمیں بھی اپنی قابلیت بڑھانی ہوگی۔
اپنے آپ کو مسلسل ترقی دو۔ اگر تم ایک ہی سطح پر رکے رہے تو وقت کے ساتھ پیچھے رہ جاؤ گے۔ سیکھنا، بدلنا اور آگے بڑھنا ہی کامیابی کی کنجی ہے۔
یہ کہانی ہمیں بتاتی ہے کہ ہر شخص کے پاس وہی جسمانی صلاحیتیں ہیں، لیکن کامیاب وہی ہوتے ہیں جو اپنی صلاحیتوں کو بہتر بنا کر آگے بڑھتے ہیں۔
کیا آپ بھی اپنی زندگی میں ترقی کرنا چاہتے ہیں؟ اگر ہاں، تو ابھی سے کچھ نیا سیکھنا شروع کریں.png)
.png)